مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4765
وعن أبي ذر قال دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث بطوله إلى أن قال قلت يا رسول الله أوصني قال أوصيك بتقوى الله فإنه أزين لأمرك كله قلت زدني قال عليك بتلاوة القرآن وذكر الله عز وجل فإنه ذكر لك في السماء ونور لك في الأرض . قلت زدني . قال عليك بطول الصمت فإنه مطردة للشيطان وعون لك على أمر دينك قلت زدني . قال إياك والضحك فإنه يميت القلب ويذهب بنور الوجه قلت زدني . قال قل الحق وإن كان مرا . قلت زدني . قال لا تخف في الله لومة لائم . قلت زدني . ليحجزك عن الناس ما تعلم من نفسك
حضرت ابوذر رضی اللہ علیہ کو آنحضرت ﷺ کی چند نصائح۔
اور حضرت ابوذر ؓ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے بعد خود ابوذر ؓ علیہ نے یا ابوذر ؓ سے نقل کرنے والے راوی نے طویل حدیث بیان کی جو یہاں نقل نہیں کی گئی بلکہ اس کے یہ آخری جملے نقل کئے گئے ہیں) پھر ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ تم کو تقوی یعنی اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ تقوی تمہارے تمام امور و اعمال کو بہت زیادہ زینت و آراشگتی بخشنے والا ہے میں نے عرض کیا میرے سے کچھ اور نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کو اپنے لئے ضروری سمجھو کیونکہ یہ تمہارے لئے آسمان میں موجب ذکر ہوگا اور زمین پر نور کا سبب ہوگا یعنی جب تم تلاوت قرآن اور اللہ کا ذکر میں مشغولیت اختیار کرو گے تو اس کے سبب سے آسمانوں میں ملائکہ تمہارا ذکر خیر کریں گے بلکہ حق تعالیٰ بھی تمہیں یاد کرے گا اور اس میں دنیا میں تمہارے معرفت و یقین اور راہ ہدایت کا نور ظاہر ہوگا میں نے عرض کیا میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا طویل خاموشی کو اپنے اوپر لازم کرو کیونکہ خاموشی شیطان کو دور بھگاتی ہے اور دینی امور میں تمہاری مددگار ہوتی ہے یعنی خاموشی پر مداومت اختیار کرنے کی وجہ سے تمہیں اللہ کی نعمتوں میں غور فکر کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع نصیب ہوگا علاوہ ازیں خاموشی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ تم اپنے آپ کو شیطان کی فتنہ خیزیوں سے محفوظ رکھ سکو گے جو زبان کے راستہ سے عملی زندگی میں سرایت کرتا ہے اور دنیا و آخرت کے ذبردست نقصان و خسران میں مبتلا کر لتیا ہے دوسرے یہ کہ خاموشی تمہاری دینی و اخروی بھلائی وسعادت کا ضامن بھی بنے گی کیونکہ جب وہ تمہیں زبان کی آفتون سے محفوظ و سلامت رکھ کر تمہارے دل کو اللہ کی طرف متوجہ رکھے گی تو یہ چیز ذکر خفی کے سبب سے تمہارے حق میں علوم و معارف اور نورانیت قلب کے حصول کا موجب ہوگی) میں نے عرض کیا میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا بہت زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے اور چہرے کی موزونیت کو کھو دیتا ہے یعنی بہت ہنسانے کی وجہ سے چونکہ قلب پر غفلت وبے حسی کی تاریکی چھا جاتی ہے اور علم و معرفت کا وہ نور بجھ جاتا ہے جس پر دل کی حیات کا دار و مدار ہے اس لئے بہت زیادہ ہنسنے والے کا دل گویا مردہ ہوجاتا ہے نیز جب دل غافل ہوجاتا ہے اور قوائے باطن پر غفلت وبے حسی طاری ہوجاتی ہے تو طاعت و عیادت میں بھی کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ نور رخصت ہوجاتا ہے جو عبادت کی علامت کے طور پر مومن کے چہرے پر ہوتا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (سیما ھم فی وجوھھم من اثرالسجود)، ویسے بھی یہ بات یقینی ہے کہ دل کی مردنی چہرے کو بےنور بنا دیتی ہے کیونکہ بدن کی تروتازگی اور نورانیت دراصل حسی اور معنوی حیات پر منحصر ہے میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا سچی بات کہو اگرچہ کڑوی ہو (یعنی حق کے اظہار میں کبھی نہ چوکو بلکہ جو بات سچی ہو اس کو ضرور کہو اگر اس کی وجہ سے لوگوں کو یا خود تمہارے نفس کو ناگواری محسوس ہو) میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا اللہ کے دین اور اللہ کو ظاہر کرنے اور اس کی تائید وتقویت میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا چاہیے کہ وہ چیز تمہیں لوگوں کے عیوب ظاہر کرنے سے روکے جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو یعنی جب تمہیں کسی کی عیب گوئی کا خیال آئے تو فورا اپنے عیوب کی طرف دیکھو اور سوچو کہ خود میری ذات میں اتنے عیب ہیں تو میں دوسرے کی عیب گیری کیا کروں گو! تم خود اپنے عیوب و نقائص کی طرف متوجہ رہو اور دوسروں کی عیب گوئی سے اجتناب کرو۔

تشریح
ہر ایک کام اور ہر بھلی بات، جو محض اللہ کی رضا و خوشنودی اور اس کو تقرب حاصل کرنے کی نیت سے صادر و سرزد ہو ذکر اللہ میں داخل ہے اگر اس جملہ یعنی سب ذکروں میں افضل لاالہ الا اللہ ہے تو کہا جائے گا کہ مذکورہ جملہ اس اسلوب بیان کا مظہر ہے جس میں کوئی بات پہلے عمومی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور پھر کسی ایسے جز کو خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے جو تمام اجزاء سے زیادہ شرف و فضیلت رکھتا ہو۔ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو! کے ذریعہ گویا تلقین فرمائی گئی کہ اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کا جو فریضہ تم پر عائد ہوتا ہے اگر اس کی انجام دہی میں تمہیں دنیا والوں سے پوری طرح منہ موڑنا پڑے تو اس میں ہچکچاہٹ نہ دکھاؤ اور اس بات کو ضروری سمجھو کہ تمہیں دنیا والوں کی مذمت اور تعریف سے بالکل بےپرواہ ہو کر ہر حالت میں حق و صداقت پر اور اللہ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (وتبتل الیہ تبتیلا)، یعنی اور دنیا والوں سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا و خوشنودی کی طرف رجوع کرو۔ جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو کا مطلب یہ ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ خود تمہارے اندر کیا عیوب ہیں اور تمہارا نفس کن برائیوں میں مبتلا ہے تو پھر تمہارے لئے یہ قطعا مناسب نہ ہوگا کہ تم دوسرے کے عیوب پر نظر رکھو اور دوسروں کی برائیوں پر انگلی اٹھاؤ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے نقطہ نظر سے تو بیشک کسی کو اس کی برائی پر ٹوک سکتے ہو اور اس کو راہ راست اختیار کرنے کی تلقین کرسکتے ہو بلکہ تم پر یہ ضروری بھی ہے کہ اگر تم کسی کو برائی میں مبتلا دیکھو تو اس کو اس برائی سے ہٹانے کی کوشش کرو لیکن محض عیب جوئی اور تحقیر و تذلیل کے خیال سے کسی کی برائی پر انگلی نہ اٹھاؤ اور اس کی غیبت نہ کرو بلکہ اپنی برائیوں اور اپنے عیوب پر نظر رکھتے ہوئے خود اپنے کو سب سے زیادہ ناقص اور کم تر سمجھو کسی نے کیا خوب کہا ہے، غافل اندایں خلق از خود بیخبر لاجرم گویند عیب یگدگر دیلمی نے حضرت انس ؓ سے یہ قول نقل کیا ہے، طوبی لمن شغلہ علیہ عن عیوب الناس قابل مبارک باد ہے وہ شخص جس کو اس کا عیب لوگوں کی عیب گیری سے باز رکھے۔
Top