Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4525 - 4805)
Select Hadith
4525
4526
4527
4528
4529
4530
4531
4532
4533
4534
4535
4536
4537
4538
4539
4540
4541
4542
4543
4544
4545
4546
4547
4548
4549
4550
4551
4552
4553
4554
4555
4556
4557
4558
4559
4560
4561
4562
4563
4564
4565
4566
4567
4568
4569
4570
4571
4572
4573
4574
4575
4576
4577
4578
4579
4580
4581
4582
4583
4584
4585
4586
4587
4588
4589
4590
4591
4592
4593
4594
4595
4596
4597
4598
4599
4600
4601
4602
4603
4604
4605
4606
4607
4608
4609
4610
4611
4612
4613
4614
4615
4616
4617
4618
4619
4620
4621
4622
4623
4624
4625
4626
4627
4628
4629
4630
4631
4632
4633
4634
4635
4636
4637
4638
4639
4640
4641
4642
4643
4644
4645
4646
4647
4648
4649
4650
4651
4652
4653
4654
4655
4656
4657
4658
4659
4660
4661
4662
4663
4664
4665
4666
4667
4668
4669
4670
4671
4672
4673
4674
4675
4676
4677
4678
4679
4680
4681
4682
4683
4684
4685
4686
4687
4688
4689
4690
4691
4692
4693
4694
4695
4696
4697
4698
4699
4700
4701
4702
4703
4704
4705
4706
4707
4708
4709
4710
4711
4712
4713
4714
4715
4716
4717
4718
4719
4720
4721
4722
4723
4724
4725
4726
4727
4728
4729
4730
4731
4732
4733
4734
4735
4736
4737
4738
4739
4740
4741
4742
4743
4744
4745
4746
4747
4748
4749
4750
4751
4752
4753
4754
4755
4756
4757
4758
4759
4760
4761
4762
4763
4764
4765
4766
4767
4768
4769
4770
4771
4772
4773
4774
4775
4776
4777
4778
4779
4780
4781
4782
4783
4784
4785
4786
4787
4788
4789
4790
4791
4792
4793
4794
4795
4796
4797
4798
4799
4800
4801
4802
4803
4804
4805
مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 5304
فتنہ دہیما کا مصداق
فتنہ دہیما کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اس کے ذریعے حضور ﷺ نے ترکوں (تاتاریوں) کے اس قبضہ و تسلط کی پیشین گوئی فرمائی جس نے اسلامی شہروں کو تراج کیا اور مسلمانوں کو سخت ترین تباہی و بربادی سے دوچار کیا، چناچہ اس وقت جس جس نے ترکوں کی حمایت کی اور ان کے معاون بنے وہ منافقین کے زمرے میں شمار کئے گئے یہ ساتویں صدی ہجری کے وسط کا واقعہ ہے جب کہ خلافت عباسیہ کا آخری فرمانروا مستعصم باللہ بن مستنصر باللہ بغداد کے تخت خلافت پر متمکن تھا، یہ انتہائی کم ہمت، بےحوصلہ اور غیر مدبر خلیفہ تھا اس نے اپنا وزیر موئد الدین علقمی کو بنا رکھا تھا جو نہایت متعصب اور بدباطن شیعہ تھا علقمی نے عہد وزارت پر فائز ہوتے ہی اپنی عیاریوں اور چالا کیوں سے خلیفہ کو عضو معطل بنا کر خود سیاہ وسفید کا مالک بن بیٹھا، اس کی شروع سے یہ خواہش تھی کہ کسی طرح عباسیوں کا نام ونشان ختم کر کے بغداد میں علویوں کی خلافت قائم ہوجائے اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس نے ایک غیر ملکی طاقت یعنی تاتاریوں سے سازباز کرلی اور چنگیزخاں کے پوتے ہلاکو خان کو دعوت دی کہ تم اپنی فوج لے کر بغداد پر حملہ کردو، میں نہایت آسانی کے ساتھ تمہیں بغداد کی خلافت اور اس کے زیر تسلط دوسرے علاقوں اور ممالک پر قبضہ کرا دوں گا، ہلاکو خاں کو شروع میں تو اس کی دعوت قبول کرنے میں تامل ہوا کیونکہ اہل بغداد کی شجاعت وبہادری اور خلافت کی ہیبت سے مرعوب تھا لیکن جب علقمی نے مختلف حیلوں اور سازشوں کے ذریعے بغداد کی فوج کا بہت بڑا حصہ دور دراز کے علاقوں اور شہروں میں منتشر کرا دیا اور باقی ماندہ فوجیوں کے ذریعے شہر میں بعض اقدامات کرا کے لوٹ مار کا بازار گرم کرا دیا جس سے سخت ابتری اور انتشار پھیل گیا اور ہلاکو خان کو معلوم ہوگیا کہ خلافت کی طاقت بہت کمزور ہوگئی ہے اور خلیفہ کی طاقت بہت کمزور ہوگئی ہے اور خلیفہ کی فوج کسی بڑے عملے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہے تو ہلاکو خان نے اس دعوت کو قبول کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کی، علقمی نے ایک چال اور اختیار کی اس نے بغداد کے شیعوں کی طرف سے ہلاکو خان کو کثیر تعداد میں بغداد پر حملہ کرنے کی دعوت پر مشتمل خطوط راوانہ کر ادئیے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بطور پیشین گوئی ہمیں خبر دی تھی کہ فلاں سن میں فلاں تاتاری سردار بغداد و عراق پر قبضہ کرلے گا اور ہمارا یقین ہے کہ وہ فاتح سردار آپ ہی ہیں اس بات سے ہلاکو خان کے ارادے کو اور تحریک ملی، ادھر خود ہلاکو خان کے دربار میں ایک شیعہ نصیرالدین طوسی پہلے سے موجود تھا اور علقمی کی طرح وہ بھی عباسیوں کی خلافت ختم کرانے کے درپے تھا، اس نے بھی مختلف ترغیبات اور لالچ کے ذریعے ہلاکو خان کے ارادے کو بہت تقویت پہنچائی۔ چناچہ ہلاکو خان نے پہلے تو ایک زبردست فوج ہر اول دستے کے طور پر بغداد کی طرف روانہ کی جس کا مقابلہ خلیفہ کی کمزور فوج سے ہوا اور شروع میں اس فوج نے کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر انجام کار شکست سے دوچار ہوئی اور تاتاریوں کا ہر اول دستہ کامیاب رہا، پھر ہلاکو خان ایک بہت بڑی فوج لے کر بغداد کے اوپر چڑھ آیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا، اہل شہر نے اس کا مقابلہ کیا اور پچاس روز تک تاتاریوں کو شہر میں گھسنے نہیں دیا۔ لیکن بغداد کے شیعوں نے نہ صرف یہ کہ خفیہ طور پر ہلاکو خان سے اپنے لئے امن و تحفظ کی ضمانت حاصل کرلی تھی بلکہ شہر کے حالات اور فوجی اطلاعات بھی ہلاکو خان کو پہنچاتے رہے پھر علقمی نے ایک اور سازش کی، اس نے خلیفہ سے کہا کہ میں نے آپ کے لئے امن و تحفظ کی ضمانت حاصل کرلی ہے، آپ ہلاکو خان کے پاس چلیں وہ آپ کے ساتھ اعزازو تکریم سے پیش آئے گا اور مفاہمت کر کے آپ کو بغداد و عراق کا حکمراں باقی رکھے گا۔ خلیفہ علقمی کے بہکاوے میں آ کر اپنے بیٹے کے ساتھ شہر سے نکل کر ہلاکو خان کے لشکر میں پہنچا، ہلاکو خان نے خلیفہ کو دیکھ کر کہا کہ آپ اپنے اراکین سلطنت اور شہر کے علماء وفقہاء کو بھی یہیں بلوا لیجئے چناچہ خلیفہ نے ان سب کو حکم بھیج کر وہاں بلوا لیا، جب سب لوگ آگئے تو ہلاکو خان نے خلیفہ کے سامنے ہی ان سب کو ایک ایک کر کے قتل کروا دیا اس کے بعد ہلاکو خان نے خلیفہ سے کہا کہ تم شہر میں پیغام بھیج دو کہ اہل شہر ہتھیار رکھ کر شہر سے باہر آجائیں، خلیفہ نے یہ پیغام بھی شہر میں بھیج دیا، اہل شہر باہر نکلے اور تاتاریوں نے ان کو قتل کرنا شروع کیا شہر کے تمام سوار پیادے اور شرفاء کھیرے ککڑی کی طرح کئی لاکھ کی تعداد میں کاٹ ڈالے گئے، شہر کی خندق ان کی لاشوں سے بھر گئی اور اس قدر خون بہا کہ اس کی کثرت سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا، تاتاری لوگ شہر میں گھس پڑے عورتیں اور بچے اپنے سروں پر قرآن شریف رکھ کر نکلے مگر تاتاریوں کی تلوار سے کوئی بھی نہ بچ سکا اور ان ظالموں نے بغداد اور اس کے مضافات میں چن چن کر لوگوں کو قتل کیا، شہر بغداد میں صرف چند شخص جو کنویں اور دوسری پوشیدہ جگہوں میں چھپے ہوئے رہ گئے، زندہ بچے، باقی کوئی متنفس زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ اگلے دن یعنی ٩ صفر ٦٥ ھ کو ہلاکو خان، خلیفہ مستعصم باللہ کو ہمراہ لے کر بغداد میں داخل ہوا اور قصر خلافت میں پہنچ کر دربار کیا، خلیفہ سے تمام خزانوں کی کنجیاں لے لیں، جتنے دفینے تھے سب حاصل کئے، پھر خلیفہ کو نظر بند کردیا گیا اور بھوکا پیاسا رکھا گیا، اس کے بعد جب ہلاکو خاں نے خلیفہ مستعصم کے مستقبل کے بارے میں اپنے اراکین سے مشورہ کیا تو سب نے رائے دی کہ اس کو قتل کردینا چاہئے لیکن بدبخت علقمی اور طوسی نے کہا کہ نہیں تلوار کو اس کے خون سے آلودہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو نمدے میں لپیٹ کر لاتوں سے کچلوانا چاہئے، چناچہ یہ کام علقمی ہی کے سپرد ہوا اور اس نے اپنے آقا مستعصم باللہ کو نمدے میں لپیٹ کر اور ایک ستون سے باندھ کر اس قدر لاتیں لگوائیں کہ خلیفہ کا دم نکل گیا۔ پھر اس کی لاش کو زمین پر ڈال کر تاتاری سپاہیوں کے پیروں سے روندوا کر پارہ پارہ اور ریزہ کروا دیا اور خود دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا کہ میں علویوں کا انتقام لے رہا ہوں غرض یہ کہ بدنصیب خلیفہ کی لاش کو گور و کفن بھی نصیب نہیں ہوا اور اس طرح خاندان عباسیہ کی خلافت کا خاتمہ ہوگیا اس کے بعد ہلاکو خان نے شاہی کتب خانہ کو بھی نہیں بخشا، جس میں بیشمار کتابوں کا ذخیرہ تھا، یہ تمام کتابیں دریائے دجلہ میں پھینک دی گئیں جس سے دریا میں ایک بند سا بندھ گیا اور بتدریج پانی ان سب کو بہا لے گیا، دجلہ کا پانی جو بغداد ومضافات کے مقتولین کے خون سے سرخ ہو رہا تھا اب ان کتابوں کی روشنائی سے سیاہ ہوگیا اور عرصہ تک سیاہ رہا۔ تمام شاہی محلات کو لوٹ کر مسمار کردیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھوں بغداد اور مضافات بغداد میں جو قتل عام ہوا اس کے نتیجے میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان مقتول ہوئے۔ غرض یہ کہ وہ ایسی عظیم الشان اور ہیبت ناک خونریزی اور بربادی تھی جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی اور اسلام پر ایک ایسی مصیبت آئی تھی کہ لوگوں نے اس کو قیامت صغری کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اس سانحہ عظمی کا سب سے زیادہ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ علقمی نے جس علوی خلافت کے قیام اور اپنی حکمرانی کی خواہش کے تحت اتنی عظیم الشان تباہی و بربادی کے اسباب پیدا کئے اور پورے عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچنے کا باعث بنا، اس کے ہاتھ کچھ نہ لگا، ہلاکو خان نے کسی ہاشمی یا علوی کو خلیفہ وحکمران بنانے کے بجائے اپنے آدمیوں کو عراق میں حاکم بنادیا، علقمی نے بہت چالیں چلیں ہلاکو خان کے آگے رویا گڑ گڑایا اور لاکھ منت سماجت کی لیکن ہلاکو خان نے اس کو اس طرح دھتکار دیا جس طرح کتے کو دھتکار دیتے ہیں کچھ دنوں تک علقمی غلاموں کی طرح تاتاریوں کے ساتھ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا پھرا، آخر اپنی منافقت وغداری کا عبرتناک حشر دیکھ کر ناکامی ومایوسی کے غم سے بہت جلد مرگیا اس سانحہ کے بعد بغداد دارلخلافہ بھی نہیں رہا اور خلیفہ مستعصم باللہ کے بعد تین سال کا ایسا عرصہ گزرا جس میں دنیا میں کوئی خلیفہ نہیں تھا۔
Top