مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 613
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ حِےْنَ قَدِمُوا الْمَدِےْنَۃَ ےَجْتَمِعُوْنَ فَےَتَحَےَّنُوْنَ لِلصَّلٰوۃِ وَلَےْسَ ےُنَادِیْ بِھَا اَحَدٌ فَتَکَلَّمُوْا ےَوْمًا فِیْ ذَالِکَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ اِتَّخِذُوْا مِثْلَ نَاقُوْسِ النَّصَارٰی وَقَالَ بَعْضُھُمْ قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْےَھُوْدِ فَقَالَ عُمَرُ اَوَلَا تَبْعَثُوْنَ رَجُلًا ےُّنَادِیْ بِالصَّلٰوۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلٰوۃِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
اذان کا بیان
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ مسلمان مدینہ میں آکر جمع ہوگئے تو نماز کے لئے وقت اور اندازہ معین کرنے لگے (کیونکہ) کوئی آدمی نماز کے لئے بلانے والانہ تھا (ایک روز) جب اس مسئلے پر گفتگو ہوئی تو بعض نے کہا کہ نصاری کی طرح ناقوس بنا لیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے (یہ تمام تجاویز سن کر) حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کردیا جائے جو نماز کے لئے (لوگوں کو) بلا لیا کرے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بلال ( رض)! کھڑے ہو کر نماز کے لئے منادی دیا کرو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو منادی کرنے کا جو حکم دیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر الصلوۃ جامعۃ کہہ دیا کرو۔ یہ آواز سن کر لوگ نماز کے لئے حاضر ہوجایا کریں گے۔ لہٰذا مناوی سے مراد نماز کے لئے محض اعلان کرنا ہے نہ کہ اس سے شرعی مناوی یعنی اذان مراد ہے۔ اس توجیہ سے پہلی احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے کہ پہلے ایک مجلس میں اس طرح اعلان کرنے کی تجویز پاس ہوئی پھر بعد میں جب دوسری مجلس میں اس پر بحث و مباحثہ ہوا تو حضرت عبداللہ ابن زید ؓ نے اذان کا خواب دیکھا اور رسول اللہ ﷺ نے یا تو وحی آجانے کے بعد یا اپنے اجتہاد سے کام لے کر حضرت عبداللہ ابن زید ؓ کے خواب کے مطابق اذان مشروع فرمائی۔
Top