مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 645
عَنِ اَبنِْ عُمَرَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ بِلَالًا ےُّنَادِیْ بِلَےْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی ےُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ قَالَ وَکَانَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ رَجُلًا اَعْمٰی لَا ےُنَادِیْ حَتّٰی ےُقَالَ لَہُ اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
اذان کا بعض احکام کا بیان
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا بلال (فجر کی اذان خاص) رات کو دے دیتے ہیں لہٰذا جب تک ابن ام مکتوم اذان دیں تم (رمضان میں سحری) کھاتے پیتے رہا کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ابن ام مکتوم ؓ ایک نابینا آدمی تھے، جب تک ان سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ تم نے صبح کردی، تم نے صبح کردی، وہ اذان نہ دیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دو مؤذن تھے، ایک مؤذن تو فجر کے وقت سے پہلے رات کو اذان دیتا تھا اور دوسرا نماز فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد اذان دیتا تھا۔ چناچہ حضرات شوافع کے یہاں دو مؤذن مقرر کرنا سنت ہے ایک فجر سے پہلے اخیر آدھی رات کو اذان دینے کے لئے اور دوسرا فجر کے اول وقت پر اذان دینے کے لئے۔ حضرات حنفیہ فرماتے ہیں کہ پہلا مؤذن سحر کے لئے یا تہجد کے لئے تھا، اس کا تعلق نماز فجر کی اذان سے نہیں تھا کیونکہ ایک روایت میں خود رسول اللہ ﷺ نے صبح کی اذان وقت سے پہلے دینے سے منع فرمایا ہے، چناچہ اسی لئے حنفیہ کے ہاں فجر کی نماز کے لئے وقت سے پہلے رات کو اذان دینا جائز نہیں ہے۔ حدیث کے آخری جملے اصبحت اصبحت (یعنی تم نے صبح کردی، تم نے صبح کردی) سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابن ام مکتوم ؓ صبح ہوجانے کے بعد اذان دیتے تھے تو اس وقت تک سحری کھانا پینا کیسے جائز ہوا؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اصبحت کے معنی یہ ہیں کہ صبح ہونے والی ہے اسی کو بطور مبالغہ اصبحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
Top