مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 647
وَعَنْ مَّالِکِ بْنِ الْحُوَےْرِثِ قَالَ اَتَےْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِّی فَقَالَ اِذَا سَافَرْتُمَا فَاَذِّنَا وَاَقِےْمَا وَلْےَؤُمَّکُمَا اَکْبَرُکُمَا۔ (صحیح البخاری)
اذان کا بعض احکام کا بیان
اور حضرت مالک ابن حویرث ؓ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے صاحبزادے (ہم دونوں) سرور کائنات ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم سفر میں جاؤ تو (نماز کے لئے) اذان و تکبیر کہا کرو اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ (صحیح البخاری )

تشریح
غالباً یہ دونوں حضرات علم و ورع میں ہم پلہ ہوں گے اس لئے آپ ﷺ نے امام بننے کا حقدار اسے قرار دیا جو عمر فاروق ؓ میں بڑا ہو، یا پھر اکبر (یعنی بڑے) سے مراد افضل ہے کہ دونوں میں سے جوا فضل ہو وہ امامت کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فضیلت کی شرط اذان میں نہیں ہے، تاہم چاہیے یہی کہ اذان وہ آدمی دے جو اقامت نماز کا علم رکھتا ہو، نیک اور دیندار ہو، بلند آواز اور خوش گلو ہو اور اذان کے کلمات صحیح صحیح ادا کرسکتا ہو۔
Top