مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 652
عَنْ زَیْدِ بْنِ اَسْلَمَ قَالَ عَرَّسَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً بَطَرِیْقِ مَکَّۃَ وَوَکَّلَ بِلاَلاً اَنْ یُّوْقَظَھُمْ لِلصَّلاَۃِ فَرَقَدَ بِلاَلٌ وَرَقَدُ وْ احَتَّی اسْتَیْقَظُوْا وَقَدْ طَلَعَتْ عَلَیْھِمُ الشَّمْسُ فَاسْتَیْقَظَ الْقَوْمَ فَقَدْ فْرِعُوْاَ فَامَرَ ھُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّرْکَبُوْا حَتَّی یَخْرُ جُوْا مِنْ ذٰلِکَ الْوَادِیْ وَقَالَ اِنَّ ھَذَا وَادٍبِہٖ شَیْطَانٌ فَرْکَبُوْا حَتَّی خَرَ جُوْا مِنْ ذَلِکَ الْوَادِیْ ثُمَّ اَمَرَ ھُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّنْزِلُوْاوَاَنْ یَّتَو ضَّؤُاوَاَمَرَ بِلاَلاً اَنْ یُّنَادِیْ لِلصَّلَاۃِ اَوْ یُقِیْمَ فَصَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْرَاٰی مِنْ فَزْعِھِمْ فَقَالَ یَا اَیُّھَا النَّاسَ اِنَّ اﷲِ قَبَضَ اَرْوَاحَنَا وَلَوْ شَآ ءَ لَرَدَّھَا اِلِیْنَا فِیْ حَیْنِ غَیْرِ ھٰذَا فَاِذَا رَقَدَ اَحَدُ کُمْ عَنِ الصَّلٰوۃِ اَوْنَسِیَھَا ثُمَّ فَزِعَ اِلَیْھَا فَلْیُصَلِّّھَا کَمَا یُصَلِّیْھَا فِیْ وَقْتِھَا ثُمَّ الْتَفَتَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی اَبِیْ بَکْرِنِ الصََّدِّیْقِ فَقَالَ اِنَّ الشَّیْطَانَ اَتٰی بِلاَ لاَ وَھُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فَاَضْجَعَہُ ثُمَّ لَمْ یَزِلْ یَھْدِئُہُ کَمَا یُھْدَءُ الصَّبِْی ء حَتَّی نَامَ ثُمَّ دُعَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلاَ لاً فَاَخْبَرَ بِلاَلٌ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ الَّذِیْ اَخْبَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَبَابَکْرٍ فَقَالَ اَبُوْبَکّرٍ اَشْھَدُاَنَّکَ رَسُوْلَ اﷲِ (رَوَاہُ مُوْطَا مَالَکْ مُرْسَلاً۔ )
اذان کا بعض احکام کا بیان
حضرت زید ابن اسلم ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ مکہ معظمہ کے راستے میں (آرام کرنے کے لئے) آخر رات میں ٹھہرے اور حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ (صبح کی) نماز کے لئے سب کو جگا دیں اور جب سب لوگ سو گئے۔ (تھوڑی دیر کے بعد نیند کے غلبے کی وجہ سے) حضرت بلال ؓ کی بھی آنکھ لگ گئی۔ (پہلے تو رسول اللہ ﷺ اور ان کے بعد) تمام لوگ اس وقت جاگے جب کہ آفتاب طلوع ہوچکا تھا۔ سب لوگ (نماز قضاء ہوجانے کی وجہ سے) گھبرا گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ سوار ہو کر اس جنگل سے باہر نکل چلیں اور فرمایا کہ یہ ایک ایسا جنگل ہے جس پر شیطان مسلط ہے چناچہ سب لوگ سوار ہو کر اس جنگل سے نکل آئے۔ (ایک جگہ پہنچ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (یہاں) اتر جاؤ اور وضو کرلو۔ اور حضرت بلال ؓ کو نماز کے لئے اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ (صبح کی) نماز (قضاء باجماعت) پڑھی جب نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو گھبرایا ہوا دیکھا تو (تسلی دینے کے لئے) فرمایا کہ لوگو! اللہ تعالیٰ نے (سونے کے وقت) ہماری روحیں قبض کرلیں تھیں اگر وہ چاہتا تو ہماری روحوں کو دوسرے وقت (یعنی آفتاب طلوع ہونے سے پہلے) واپس کردیتا۔ لہٰذا اگر تم میں سے کوئی نماز کے وقت غافل سو جائے یا نماز پڑھنی بھول جائے اور (اس غفلت و نسیان سے) گھبرائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو اسی طرح (یعنی اذان و تکبیر اور جماعت کے ساتھ نیز نماز کی تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے) پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ بلال ؓ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ شیطان ان کے پاس آیا اور انہیں (کجاوے کا) سہارا لینے پر مجبور کردیا اور جس طرح بچوں کو (سلانے کے لئے) تھپکی دی جاتی ہے شیطان انہیں تھپکتا رہا۔ یہاں تک کہ بلال ؓ پر نیند طاری ہوگئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو بلایا۔ حضرت بلال ؓ نے آکر آپ ﷺ سے ویسا ہی بیان کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے بیان فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے (حضرت بلال ؓ کا بیان سن کر فرمایا)، کہ میں اس بات کی (پوری یقین کے ساتھ) گواہی دیتا ہون کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (یہ روایت امام مالک نے (رح) مرسلاً نقل کی ہے)۔

تشریح
اس قسم کا ایک واقعہ حدیث نمبر پانچ میں ذکر کیا جا چکا ہے مگر بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے واقعہ سے الگ کوئی دوسرا واقعہ ہے کیونکہ وہ واقعہ تو مدینہ اور خیبر کے راستے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان رونما ہوا تھا۔ حدیث کے الفاظ ینادی للصلوۃ او یقیم میں لفظ او جمع کا مفہوم ادا کر رہا ہے جیسا کہ حرف واو دو چیزوں کو جمع کرنے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کے معنی جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو اذان اور تکبیر کہنے کا حکم دیا، یا پھر لفظ او اپنے حقیقی مفہوم یعنی شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو اذان یا تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ مگر صحیح اور اولیٰ پہلے ہی معنی ہیں کیونکہ اس کی تائید ابوداؤد کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں الحدیث ( اَنَّہُ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَ بِلاَ لاً بِالَا ذَانِ وَالْاَ قَامَۃِ ) (رسول اللہ ﷺ نے بلال کو ؓ کو اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا)۔ فلیصلھا کما کان یصلیھا فی وقتھا (وہ اس نماز کو اس طرح پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا) یہ الفاظ بظاہر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر جہری نماز قضا ہوئی ہو تو اس کی قضا میں جہر ہی کے ساتھ پڑھائی جائے اور اگر سری نماز قضا ہوئی ہے تو اس کی قضا بھی سری ہی کے ساتھ پڑھ دی جائے۔ مگر بعض حنفی علماء نے اس سلسلے میں اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ قضاء نماز کو بہر صورت سر یعنی خاموشی کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ اَضْجَحَہُ اسندہ کے مفہوم میں ہے یعنی شیطان نے بلال ؓ کو اس طرح سہارا دیا کہ ان پر غفلت طاری ہوگئی، جیسا کہ پہلے واقعہ کے سلسلے میں گزر چکا ہے کہ حضرت بلال ؓ تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کجاوے سے سہارا لگا کر سو گئے تھے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قضاء نماز پڑھنے کے بعد صحابہ کرام ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ان اللہ قبض ارواحنا ( اللہ تعالیٰ نے ہماری روحیں قبض کرلی تھیں) فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ ہم سب کا اس موقعہ پر سو جانا درحقیقت تقدیر الہٰی کی بناء پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اس طرح غفلت کی نیند مسلط کردی کہ ہم نماز کے وقت جاگ نہ سکے۔ مگر بعد میں آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے پیش آمدہ صورت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے نیند کی اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی کہ شیطان نے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ بلال ؓ غافل ہو کر سوئے رہے اور وقت پر نہ اٹھ سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ سوتے رہے اور نماز قضاء ہوگئی۔ تو اس سے بظاہر دونوں باتوں میں تعارض نظر آتا ہے کہ پہلے تو غفلت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی پھر بعد میں اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خلق افعال سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اندر نسیان اور غفلت پیدا کرنے کا ارادہ کیا چناچہ اس نے شیطان کو اس بات پر قادر کردیا کہ مذکورہ طریقوں یعنی حضرت بلال ؓ کو تھپکنے وغیرہ سے لوگوں کو غفلت کی نیند میں مبتلا کر دے۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی اعجاز شان کی زبردست غمازی کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے معجزے کے طور پر حضرت بلال ؓ کے سو جانے کی پوری حقیقت و کیفیت بیان کردی باوجودیکہ آپ ﷺ نے اپنی ظاہری آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کیا تھا چناچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اشھد انک رسول اللہ کہہ کر آپ ﷺ کی اسی اعجاز شان کی تصدیق فرمائی۔
Top