مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 682
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُمِرْتُ بِتَشْیِیْدِ الْمَسَاجِدِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَتُزُخْرِ فُنَّھَا کَمَا زَخْرَفَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصَارٰی۔(رواہ ابوداؤد)
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا۔ مجھ کو مسجدوں کے بلند کرنے او آراستہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جس طرح یہود و نصاری ( اپنے عبادت خانوں کی) زینت کرتے ہیں اسی طرح تم بھی (مساجد) کی زینت کرو گے۔ (ابوداؤد)

تشریح
زخرف کہتے ہیں علماء کو اور کسی چیز کی کمال خوبی کو حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں نقش و نگار کریں گے اور ان کے درودیوار پر سونا چڑھائیں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا یہ قول رسول اللہ ﷺ کے بعد حسب عادت، انسانی لوگوں کے افعال کی خبر دینے کے مترادف ہے یعنی آئندہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مسجدوں کو منقش و مزین کریں گے اور ان کے درودیوار پر سونا چڑھائیں گے حالانکہ ان کا یہ طریقہ خلاف سنت ہوگا کیونکہ اسلام کی سادگی پسند فطرت اس قسم کی چیزوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مزید یہ کہ اس طریقے سے یہود و نصاری کی مشابہت ہوتی ہے۔ متاخرین علماء نے مساجد کی زیب وزینت اور ان میں نقش و نگار کی اجازت دی ہے اور کہا کہ لوگ اپنے مکانوں کو بلندو مطلا بناتے ہیں اور انہیں منقش و مزین کرتے ہیں اگر مسلمان اپنی مسجدوں کو لکڑی و مٹی سے بالکل سادہ بنائیں تو ہوسکتا ہے کہ عوام کی نظروں میں ان کی دقعت و عظمت نہ ہو اس لئے مسجدوں کو ایسے ڈھنگ سے بنانے کی اجازے دے دی گئی ہے جو موجودہ زمانے کے معیار پر دقیع و محترم سمجھی جائیں۔ مسجد نبوی زمانہ رسول اللہ ﷺ میں بالکل سادہ اور کچی تھی دیواریں اینٹوں کی اور چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے، پھر جب حضرت عمر ؓ نے اس کو دوبارہ بنوایا تو انہوں نے بھی اسی طرح مسجد کو سادہ رکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے دور خلافت میں اس مسجد کو از سر نونئے طرز پر تعمیر کروایا چناچہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مسجد کو وسیع تر بنادیا بلکہ اس کی دیواروں میں منقش پتھر اور چھت میں سال استعمال کیا اس طرح مسجد نبوی رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے مقابلے میں بہت بڑی اور خوبصورت ہوگئی۔
Top