مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 688
وَعَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَائِشٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزُّوَجَلَّ فِی اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ قَالَ فِیْمَا یَخْتَسِمُ الْمَلَاُ الْاَعْلٰی قُلُتُ اَنْتَ اَعْلَمُ قَالَ فَوَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَھَا بَیْنَ ثَدیَیَّ فَعَلِمْتُ مَا فِی السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَ تَلا وَ کَذٰلِکَ نُرِیْ اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ رَوَاہُ الدَّارِمِیُّ مُرْسَلًا وَلِلتِّرْمِذِیُّ نَحْوُہ، عَنْہُ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَزَادَفِیْہِ قَالَ یَا مُحَمَّدُ ھَلْ تَدْرِی فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَا ُالْاَعْلی قُلْتُ نَعَمْ فِی الْکَفَّارَاتِ وَ الْکَفَّارَاتُ الْمُکْثُ فِی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلوَاۃِ وَالْمَشْیُ عَلَی الْاَقْدَامِ اِلَی الْجَمَاعَاتِ وَ اِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِی الْمَکَارِہٖ وَمَنْ فَعَل ذٰلِکِ عَاشَ بِخَیْرٍ وَ مَاتَ بِخَیْرٍ وَ کَانَ مِنْ خَطِیْئَتِہٖ کَیَوْمِ وَ لَدَتْہُ اُمُّہُ وَقَالَ یَا مُحَمَّدُ اِذَا صَلَّیْتَ فَقُلْ اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْن فَاِذَا اَرَدْتَ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃَ فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ قَالَ وَالدَّرَجَاتُ اِفْشَاءُ السَّلَامِ وَ اِطْعَامُ الطَّعَامِ وَالصَّلاَۃُ بِاللَّیْلِ وَ النَّاسُ نِیَامٌ وَلَفْظُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ کَمَا فِی الْمَصَابِیْحِ لَمْ اَجِدْہُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ اِلَّا فِی شَرْحِ السُّنَّۃِ۔
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت عبدالرحمن بن عائش ؓ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو (خواب میں) بہت ہی اچھی صورت میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ مقربین فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کی پروردگار! تو ہی بہتر جانتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا جس کے ٹھنڈک مجھے اپنے سینہ پر محسوس ہوئی (اور اس کی وجہ سے) میں زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو جان گیا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَكَذٰلِكَ نُرِيْ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ ) 6۔ الانعام 75) ترجمہ اور اس طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمانوں کا تصرف دکھایا تاکہ وہ یقین کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائے۔ (دارمی مرسلا) اور ترمذی نے یہ بھی روایت بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ عبدالرحمن بن عائش، عبداللہ ابن عباس اور معاذ ابن جبل ؓ سے نقل کی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یعنی آپ کو زمین و آسمانوں کا علم دینے کے بعد سوال فرمایا کہ اے محمد ﷺ آپ کو معلوم ہے کہ مقریبن فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں؟ (آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا، ہاں! میں جانتا ہوں کفارات (یعنی گناہوں کو ختم کرنے والی چیزوں) کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں اور وہ کفارات (یہ) ہیں کہ نمازوں کے بعد مسجدوں میں (دوسرے وقت کی نماز کے انتظار میں یا ذکر و تسبیح کے لئے) بیٹھا جائے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے پیدل چلا جائے اور سختی کے وقت (مثلاً بیماری یا سردی میں اعضائے وضو پر) وضو کا پانی اچھی طرح پہنچا یا جائے (لہٰذا) جس نے یہ کیا (یعنی مذکورہ اعمال کئے) وہ بھلائی پر زندہ رہے گا اور بھلائی ہی پر مرے گا اور گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے گا گویا اس کی ماں نے آج ہی اس کو جنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے محمد! جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہو لیں تو یہ دعا پڑھ لیا کیجئے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِی اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرَکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ فَاِذَا اَرْدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ یعنی اے اللہ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے اور برائیوں کے چھوڑنے اور مسکینوں کی دوستی کا سوال کرتا ہوں اور جب تو بندوں میں گمراہی ڈالنے ( یا انہیں سزا دینے) کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھا لیجئے۔ اور اللہ تعالیٰ ( رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں زیادتی کے لئے) فرماتا ہے (یا خود رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں) کہ درجات (یعنی وہ اعمال جن سے بندے کے درجات بارگاہ حق میں بلند ہوتے ہیں) یہ ہیں کہ (ہر مسلمان کو خواہ وہ آشنا ہو یا نا آشنا) سلام کیا جائے۔ (اللہ کی راہ میں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ سو رہے ہوں نماز پڑھی جائے۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں) کہ میں نے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ جیسا کہ مصابیح میں عبدالرحمن ؓ منقول ہے سوائے شرح السنۃ کے اور کسی کتاب میں نہیں دیکھی۔

تشریح
اگر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ تو اس میں کچھ اشکال نہیں ہے کیونکہ انسان خواب میں بسا اوقات شکل دار چیز کو بغیر شکل دیکھتا ہے اور کبھی غیر شکل دار کو شکل دار صورت میں دیکھتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ نے عالم بیداری میں دیکھا تھا تو پھر اس کی تاویل کرنا ضروری ہوگی۔ اور تاویل یہ ہوگی کہ صورت سے مراد صفت ہے کہ حق تعالیٰ جل مجدہ نے صفت جمال اور لطف و کرم کے ساتھ تجلی فرمائی۔ یہ تاویل حقیقت و محاورہ سے بالکل قریب ہے کیونکہ اکثر و بیشتر صورت کا اطلاق صفت پر ہوتا ہے جیسا کہ روز مرہ کی بول چال میں کسی چیز کی حقیقت و کیفیت کے بیان کے وقت کہا جاتا ہے کہ صورت حال یہ ہے یا اس مسئلے کی صورت یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی بہتر ہے کہ صورت کے معنی کا محمول رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہی کو قرار دیا جائے۔ اس طرح آپ ﷺ کے ارشاد کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا اور اس وقت میں اچھی صورت میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ مقربین فرشتے کون سے اعمال کی فضیلت و عظمت کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ یا یہ کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کو مقام قبولیت تک پہنچانے میں فرشتے آپس میں تنازعہ کر رہے ہیں۔ بایں طور کہ ایک فرشتہ تو کہتا ہے کہ اس عمل کو مقام قبولیت تک پہلے میں پہنچاؤں اور دوسرا کہتا ہے کہ پہلے میں لے کر جاؤں۔ رسول اللہ ﷺ کے کندھوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا ہاتھ رکھنا حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان رکھا تھا کیونکہ ذات الٰہی ظاہری اجسام کی ثقالت سے پاک و صاف ہے بلکہ دراصل یہ اس چیز سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے فضل و کرم اور جزاء و انعام کی زیادتی و کثرت کے ساتھ خاص کیا جیسا کہ دنیاوی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ یا امیر اپنے کسی خاص خادم پر بہت زیادہ مہربان ہوتا ہے اور اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو وہ اس خادم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہے اس کی گردن میں با ہیں ڈال دیتا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اس خادم سے بہت زیادہ خوش ہے اور اس پر انعام و اکرام کی بارش کرنے والا ہے۔ سینے میں سردی محسوس ہونا فیض ربانی کا اثر پہنچے سے کنایہ ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب فیض ربانی سینہ میں پہنچا تو زمین و آسمان کے تمام پردے اٹھ گئے اور تمام چیزوں کا علم مجھے حاصل ہوگیا چناچہ آپ ﷺ نے اس موقعہ و حال کی مناسبت اور اس کے امکان پر گواہی دینے کے ارادہ سے مذکورہ آیت پڑھی جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد ﷺ جس طرح ہم نے آپ کے سامنے زمین و آسمانوں کے پردے اٹھا دیئے جس کے نتیجے میں آپ کو تمام چیزوں کا علم حاصل ہوگیا ہے اسی طرح ہم نے اپنے جلیل القدر پیغمبر و خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی دوعالم ربوبیت والوہیت کی حقیقتوں کو واشفگاف کردیا تھا اور انہیں زمین و آسمانوں کی تمام چیزوں کا مشاہدہ کرا دیا تھا تاکہ وہ اللہ کی ربوبیت و الوہیت پر یقین کامل کرنے والوں میں سے ہوجائیں اس طرح آیت کے آخری الفاظ ولیکون من الموقنین کا معطوف علیہ محذوف ہوگا اور پوری عبارت یوں ہوگی کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عالم ربوبیت و الوہیت دکھلادیئے تھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ ہماری ذات کے وجود کے بارے میں دلیل پکڑ سکے اور یقین کرنے والوں سے ہوجائے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ غرور وتکبر کی بری عادتوں سے یکسر ہٹ کر اپنے اندر تواضع و انکساری جود و بخشش اور عبادت و ریاضت کے جذبات و اوصاف پیدا کرے اور ان عرفانی اصولوں کی روشنی سے پہلے دل و دماغ کو منور کرکے نہ صرف یہ کہ اللہ کا حقیقی بندہ بن جائے بلکہ پوری انسانیت کے لئے باعث رحمت و راحت ہوجائے۔ شرف مردے جو دست و کرامت بسجود ہرکہ ایں ہر دو ندارد عدمش بہ ز وجود
Top