مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 701
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْھَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرْجَ۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی والنسائی)
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی )

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا پھر بعد میں آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی تھی، چناچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں تھی لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر اب اس عام اجازت کے پیش نظر درست و جائز ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں کے حق میں وہ نہی اب بھی باقی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چونکہ کمزور دل اور غیر صابر ہوتی نیز ان کے اندر جزع و فزغ کی عادت ہوتی ہے اس لئے ان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چناچہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لئے جائز ہے۔ قبر پر چراغ جلانا اس لئے حرام ہے کہ اس سے بےجا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر قبر کے پاس کوئی گزر گاہ ہو تو راہ گیروں کی آسانی کے لئے چراغ جلانا یا وہاں روشنی میں کوئی کام کرنے کے لئے چراغ جلانا جائز ہے کیونکہ اس سے قبر پر چراغ جلانا مقصود نہیں ہوگا بلکہ دوسری ضرورت و حاجت پیش نظر ہوگی۔ مولانا محمد اسحق محدث دہلوی کی تحقیق یہ ہے کہ صحیح اور معتمد قول کے مطابق عورتوں کو قبر کی زیارت کرنا مکروہ تحریمی ہے چناچہ مستملی میں لکھا ہوا ہے کہ قبروں کی زیارت مردوں کے لئے مستحب ہے اور عورتوں کے لئے مکروہ ہے۔ کتاب مجالس و اعظیہ میں مذکور ہے کہ عورتوں کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ انہ (علیہ الصلوۃ والسلام) لعن ذوارات القبور یعنی رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ نصاب الاحتساب میں منقول ہے کہ عورتوں کے قبروں پر جانے کے جواز اور اس کی خرابی و قباحت کے بارے میں قاضی سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا جواز اور اس کا فساد نہ پوچھو بلکہ یہ پوچھو کہ اس پر جو لعنت و پھٹکار برستی ہے اس کی مقدار کیا ہے؟ چناچہ جان لو! کہ جب عورت قبر پر جانے کا ارادہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی لعنت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور جب وہ قبر پر جانے لگتی ہے تو اس کو ہر طرف سے شیاطین چمٹ جاتے ہیں اور جب قبر پر پہنچ جاتی ہے تو مردے کی روح اس پر لعنت بھیجتی ہے اور جب قبر سے واپس ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں گرفتار ہوتی ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ جو عورت مقبرے پر جاتی ہے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں چناچہ وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت میں مقبرہ کا راستہ طے کرتی ہے اور جو عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر میت کے لئے دعائے خیر کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو حج اور عمرہ کا ثواب دیتا ہے۔ حضرت سلمان اور ابوہریرہ ؓ کی ایک روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد سے نکل کر اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے تھے کہ (باہر سے) حضرت فاطمہ الزہرا ؓ آئیں آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آر ہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں عورت کا انتقال ہوگیا ہے اس کے مکان پر گئی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اس کی قبر پر بھی گئی تھیں؟ حضرت فاطمہ ؓ نے کہا معاذ اللہ! کیا میں اس عمل کو کرسکتی ہوں جس (کی ممانعت) کے بارے میں آپ ﷺ سے میں سن چکی ہوں! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (تم نے یہ اچھا ہی کیا کہ اس کی قبر پر نہ گئیں کیونکہ اگر تم اس کی قبر پر چلی جاتیں تو تمہیں جنت کی بو (بھی) میسر نہ ہوتی۔ حضرت قاضی ثناہ اللہ پانی پنی نے اپنی کتاب مالا بد منہ میں لکھا ہے کہ زیارت قبور مرداں را جائز است نہ زناں را یعنی قبروں کی زیارت مردوں کے لئے تو جائز ہے عورتوں کے لئے نہیں۔
Top