مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 110
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ تَکَلَّمَ فِیْ شَیْیءِ مِنَ الْقَدَرِ یُسْئَلُ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَّمْ یَتَکَلَّمْ فِیْہِ لَمْ یُسْئَلْ عَنْہُ۔ (رواہ ابن ماجہ)
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دوعالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تقدیر کے مسئلے میں بحث و مباحثہ کرے گا قیامت میں اس سے باز پرس ہوگی اور جو (شخص اس پر ایمان لا کر) خاموشی اختیار کرے گا وہ اس مواخذہ سے بچ جائے گا۔

تشریح
اس حدیث کا مقصد تقدیر کے مسئلہ میں غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے منع کرنا ہے کہ اللہ کے اس راز میں جو بندوں پر ظاہر نہ کرنا ہی مصلحت الٰہی ہے زیادہ بحث و مباحثہ کرنا یا اپنی عقل کی پیروی کرنا آخرت کے لئے کوئی کار آمد نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ میں کسی قسم کا غور و فکر یا تحقیق و تجسس خسران آخرت اور قیامت میں باز پرس کا باعث ہے اس لئے فلاح وسعادت اسی میں ہے کہ تقدیر پر ایمان لایا جائے اور خاموشی اختیار کر کے عمل میں مصروف رہے۔
Top