مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 26
وَعَنْ عَمْرِ وبْنِ الْعَاصِص قَالَ اَتَےْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْتُ اُبسُطْ ےَمِےْنَکَ فَلِاُ بَاےِِعَکَ فَبَسَطَ ےَمِےْنَہُ فَقَبَضْتُ ےَدِیْ فَقَالَ مَالَکَ ےَا عَمْرُو قُلْتُ اَرَدْتُّ اَنْ اَشتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ مَاذَا قُلْتُ اَنْ ےُّغْفَرَ لِیْ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ ےَا عَمْرُو اَنَّ الْاِسْلَامَ ےَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَاَنَّ الْھِجْرَۃَ تَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَھَا وَاَنَّ الْحَجَّ ےَھْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ۔ وَالْحَدِےْثَانِ الْمَرْوِےَّانِ عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا اَغْنِی الشُّرَکَآءِ عَنِ الشِّرْکِ وَالْاٰخَرُ الْکِبْرِےآءُ رِدَآئِیْ سَنَذْکُرُ ھُمَا فِیْ بِاَبِ الرِّّےآءِ وَالْکِبْرِ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔رَوَاہُ مُسْلِمٌ 25-25
قبول اسلام سے سابقہ گناہ مٹ جاتے ہیں
حضرت عمرو بن العاص (آپ مشہور و معروف قریشی صحابی ہیں آپ کی کنیت ابوعبداللہ یا ابومحمد بیان کی گئی ہے آپ کا سن وفات ٤٣ ھ بیان کیا جاتا ہے)۔ فرماتے ہیں کہ میں (جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی سے میرے قلب و دماغ کو منور کیا تو) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! لائیے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے میں آپ ﷺ سے اسلام کی بیعت کرتا ہوں، آپ نے (یہ سن کر) اپنا ہاتھ (جب) بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو آپ ﷺ نے (حیرت سے) فرمایا عمرو یہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں کچھ شرط لگانی چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا (میں چاہتا ہوں) کہ میرے (ان) تمام گناہوں کو مٹا دیا جائے (جو میں نے اسلام سے پہلے کئے تھے) آپ نے فرمایا اے عمرو! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام ان تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو قبول اسلام سے پہلے کئے گئے ہوں، ہجرت ان تمام گناہوں کو دور کردیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کئے گئے ہوں اور حج ان تمام گناہوں کو مٹا دیا جائے جو اس حج سے پہلے کئے گئے ہوں (صحیح مسلم) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ دونوں حدیثیں یعنی قال اللہ تعالیٰ ان اغنی الشر کاء عن الشرک الخ اور الکبریاء ردائی الخ ریاء اور کبر کے باب میں نقل کی جائیں گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔

تشریح
ایک شخص اگر اپنی زندگی کا ایک اچھا خاصہ کفر وشرک میں گزار کر بعد میں اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوتا ہے، تو کیا اس کے زمانہ اسلام سے پہل کے اعمال پر مواخذہ ہوگا؟ یعنی کفر و شرک اور گناہ و معصیت جو اس سے پہلے صادر ہوتے رہے ہیں ان پر عذاب ہوگا یا نہیں؟ اس حدیث نے اس مسئلہ کو صاف کردیا کہ اسلام کی روشنی پہلی تمام تاریکی کو خواہ وہ کفر و شرک کا اندھیرا ہو یا گناہ و معصیت کی ظلمت، آن واحد میں ختم کر ڈالتی ہے اور صرف ایک کلمہ کی بدولت جو خلوص دل سے نکلا ہو، انسان کا قلب و دماغ بالکل مجلی ہوجاتا ہے، نہ وہاں شرک کی ظلمتوں کا کوئی نشان رہ جاتا ہے اور نہ گناہ معصیت پر عذاب کا کوئی خدشہ، لیکن اتنی بات جان لینی چاہیے کہ بخشش اور مغفرت کا تعلق ذنوب اور گناہوں سے ہے، ان حقوق کے ساتھ نہیں ہے جو قرض، امانت، عاریت اور خریدو فروخت کے سلسلے میں اس کے ذمہ ابھی باقی ہیں کیونکہ اسلام ان مطالبات کی ادائیگی کو معطل نہیں کرتا جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے بلکہ اسلام لانے کے بعد بھی اس پر لازم رہے گا کہ وہ ان مطالبات کی ادائیگی کرے جو اس پر اسلام لانے سے پہلے واجب تھے، البتہ اس حدیث تحت ایسے حقوق العباد آسکتے ہیں جو زنا، چوری اور قتل و غارت گری کی صورت میں زمانہ اسلام سے قبل ناحق ضائع کردیئے گئے تھے، اسلام کے بعد ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ اسلام کی دولت سے مستفیض ہونے کے بعد بھی چونکہ ایک مسلمان سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہوسکتے ہیں اس لئے ان کے کفارہ کے لئے اس حدیث نے حج اور ہجرت دو ایسے عمل بتا دیئے کہ اگر یہ دونوں کام اپنی تمام شرائط کے ساتھ پورے کئے جائیں تو یہ حقوق اللہ کے لئے کفارہ بن جائیں گے بلکہ حج کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے یہ حقوق العباد کے لئے بھی کفارہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنے خزانہ قدرت سے صاحب حقوق کو اس کے حقوق دے کر اس بندہ کو ان حقوق سے دستبرداری دلا دے اور اسے معاف کر دے۔ (ترجمان السنۃ)
Top