مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 54
وَعَنْ اَنَسٍ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلَاثٌ مِنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ الْکُفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلِ وَ الْجِھَادُ مَاضٍ مُذْبَعَثَنِیَ اﷲُ اِلٰی اَنْ یُقَاتِلَ اٰخِرُ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ الدَّ جَّالُ لَا یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَ الْاِیْمَانُ بِالْاَقْدَارِ۔ (رواہ ابودؤد)
وہ تین باتیں جو ایمان کر جڑ ہیں
اور حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں (١) جو آدمی لا الہ اللہ کا اقرار کرے اس سے جنگ و مخاصمت ختم کردینا، اب کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اس پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوی لگاؤ (٢) جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے جہاد ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ اس امت کے آخر میں ایک آدمی آکر دجال سے جنگ کرے گا۔ کسی عادل (بادشاہ) کے عدل یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ لے کر جہاد ختم نہیں کیا جاسکتا (٣) اور تقدیر پر ایمان لانا۔ (ابوداؤد)

تشریح
کسی مسلمان کو کافر کہنے کی ممانعت اس حدیث نے واضح طور پر ثابت کردی ہے، مطلب یہ ہے جس طرح اچھے کام کرنے والے کافر کو مسلمان کہنا منع ہے تاوقتیکہ وہ توحید و رسالت کا اقرار نہ کرے اسی طرح کسی مسلمان کو صرف اس کی بداعمالیوں کی بنا پر کافر کہنا بھی سخت جرم ہے جب تک کہ وہ عقیدہ کفریہ کا اعلان نہ کرے پس لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ ( کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو) کے الفاظ ہیں تو خارجیوں کی تردید ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ مومن اگر گناہ کا مرتکب ہوجائے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو تو وہ وہ کافر ہوجاتا ہے اور وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِ سْلَامِ بِعَمَلٍ ( اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے خارج اسلام قرار دو ) کے الفاظ میں (معتزلہ) کی تردید ہے جو فرماتے ہیں کہ بندہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے خارج از اسلام ہوجاتا ہے اگرچہ کافر نہیں ہوتا۔ مرتکب گناہ کبیرہ کے لئے وہ ایک درمیانی درجہ مانتے ہیں، یعنی نہ تو اس کو مسلمان فرماتے ہیں اور نہ کافر۔ بہرحال خارجیوں اور معتزلہ سے قطع نظر موجودہ دور کے ان مسلمانوں کو بھی اس حدیث کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے جو کفر سازی کے کارخانے چلاتے ہیں اور اپنے مکتب فکر کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کو بےدریغ کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ شقی القلب محض ذاتی اغراض اور نفساتی خواہشات کے تحت نہ صرف عام مسلمانوں کو بلکہ علماء حق اور اولیاء اللہ تک کو کافر کہنے سے ذرا نہیں جھجکتے۔ ان لوگوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ جب لسان نبوت نے عاصی مسلمان کو بھی کافر کہنے سے سخت منع فرمایا ہے تو پھر ان بزرگان دین اور پیشوا اسلام کا کافر کہنا کہ جن کی زندگیوں کا تمام حصہ مذہب کی خدمت و اشاعت میں گزرتا ہے اور جو ان کو کافر نہ کہے اس کو بھی کافر کہنا احکام شریعت اور فرمان رسالت سے کتنا مضحکہ خیز معاملہ ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ نکل سکتا۔ حدیث میں جن باتوں کو ایمان کی جڑ فرمایا گیا ہے ان میں سے پہلی بات تو وہی ہے جس کی وضاحت اوپر ہوئی۔ دوسری بات جہاد ہے، اس بارے میں ارشاد نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب روئے زمین پر دین حق (جو اللہ کا آخری اور کامل دین ہے) کے ظاہر ہوجانے اور رسول اللہ کی رسالت کا اعلان ہوجانے کے بعد سے اس وقت تک کہ آخر میں قیامت کے قریب دجال مارا نہ جائے، یاجوج ماجوج ظاہر ہو کر فنا کے گھاٹ نہ اترجائیں اور یہ روئے زمین دین کے ایک ایک دشمن اور منکر سے پاک نہ ہوجائے، جہاد برابر جاری رہے گا۔ جہاد کی فرضیت اور اہمیت اس صورت میں بھی ختم نہیں ہوگی جب کہ کوئی اسلامی سربراہ مملکت ظالم و جابر ہو اگر دشمنان دین کے خلاف وہ جہاد کا اعلان کر دے تو اس کو ماننا اور اس کے ساتھ جہاد میں شریک ہونا شرعی طور پر ضروری ہوگا۔ یہ نہیں کہ اس کے ظلم و جبر کا بہانہ لے کر جہاد میں شریک اور مددگار بننے سے انکار کردیا جائے اسی طرح اگر کسی دشمن دین قوم کا سربراہ اور بادشاہ اتفاق سے عادل اور منصف مزاج ہو تو ہرچند کہ بادشاہ کا عدل امن و انصاف کا باعث ہوتا ہے، لیکن اسلام کی شوکت بڑھانے اور دین کا بول بالا کرنے کے لئے اس عادل بادشاہ کی قوم کے خلاف بھی جہاد کو غیر ضروری نہیں دیا جاسکتا۔ تیسری بات تقدیر پر اعتقاد و یقین رکھنا ہے یعنی ایمان کی سلامتی کے لئے یہ یقین رکھنا اشد ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو بھی حادثات و واقعات پیش آتے ہیں وہ سب قضا و قدر الہٰی کے تحت ہے۔
Top