مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 68
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الشَّےْطَانَ قَدْ اَےِسَ مِنْ اَنْ ےَّعْبُدَہُ الْمُصَلُّوْنَ فِی جَزِےْرَۃِ الْعَرَبِ وَلٰکِنْ فِی التَّحْرِےْشِ بَےْنَھُمْ۔(صحیح مسلم)
جزیرۃ العرب میں توحید کی مضبوط بنیاد سے شیطان مایوسی کا شکار!
اور حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں مصلی (یعنی مسلمان) اس کی پرستش کریں لیکن ان کے درمیان فتنہ و فساد پھیلانے سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ کہ جزیرۃ العرب میں ایمان و اسلام کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئیں ہیں اور توحید کا کلمہ یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ میں اس طرح جم گیا ہے کہ اب اس خطہ ارض میں بت پرستی جیسی لعنت کبھی نظر آئے گی چناچہ اس بارے میں شیطان نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور وہ اس بات سے قطعا مایوس ہوگیا ہے کہ یہاں کے مومن و مسلمان اس کے بہکاوے میں آکر بت پرستی اور دوسری کھلی ہوئی مشرکانہ حرکتوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں، لیکن بہر صورت بہکانا اور ورغلانا چونکہ شیطان کی فطرت ہے اس لئے اس نے جزیرۃ العرب کے لوگوں میں اپنا مشن ختم نہیں کیا ہے اور اس بات میں پر امید ہے کہ ان کے درمیان طرح طرح جذبات ابھار کر ان کو آپس میں لڑایا جاسکتا ہے۔ ان کو افتراق و انتشار کے فتنوں میں مبتلا کیا جاسکتا ہے۔ اس حدیث کے پس منظر میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ زمانہ رسالت سے لے کر آج تک کبھی بھی جزیرۃ العرب میں بت پرستی نہیں ہوئی۔ کھلے ہوئے مشرکانہ اعمال کا کبھی مظاہرہ نہیں ہوا۔ یہ دوسری بات ہے کہ شیطان کمزور عقیدہ لوگوں کو ایمان و اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہوگیا، کچھ لوگ مرتد ہوگئے ہوں لیکن ان میں سے بھی کوئی بت پرست ہوگیا ہو ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
Top