مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 69
عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَآءَ ہ، رَجُلٌ فَقَالَ اِنِّی اُحَدِّثُ نَفْسِیْ بِالشَّیْی ءِ لَاَنْ اَکُوْنَ حُمَمَۃً اُحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَتَکَلَّمَ بِہٖ قَالَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہ، اِلَی الْوَسْوَسَۃِ۔ (رواہ ابوداؤد)
شیطانی وسوسہ سے محفوظ رہنے پر اللہ کا شکر ادا کرو
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی نے حاضر ہو کر عرض کیا ( یا رسول اللہ) میں اپنے اندر ایسا (برا) خیال پاتا ہوں کہ زبان سے اس کے اظہار کی بجائے جل کر کوئلہ ہوجانا مجھ کو زیادہ پسند ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا! اللہ کا شکر ادا کرو جس نے اس خیال کو وسوسہ کی حد تک رکھا۔ (سنن ابوداؤد)

تشریح
شیطان نے ان صحابی کے اندر کوئی برا خیال ڈال دیا ہوگا جس سے ان کے ایمان کی حسیاتی کیفیت بےچین ہوگئی ہوگی اور وہ بھاگتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو تسلی دی کہ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ تو اللہ کا بڑا فضل ہے کہ تمہارا ایمانی احساس و شعور پوری طرح بیدار رہے اور اس برے خیال کو خود تمہارے دل و دماغ نے قبول نہیں کیا اور وہ وسوسہ کی حد سے آگے بڑھنے نہیں پایا۔ اس طرح کے وسوسہ پر نہ کوئی مواخذہ ہے اور نہ کسی نقصان کا خدشہ، اس کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف قرار دیا ہے، ہاں اگر وہ برا خیال وسوسہ کی حد سے آگے بڑھ کر تمہاری زبان یا عمل سے ظاہر ہوجاتا تو پھر تمہارے لئے خطرہ کی بات تھی۔
Top