مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 83
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا اَدْرَکَ ذَالِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَاالْعَےْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَتَشْتَھِیْ وَالْفَرْجُ ےُصَدِّقُ ذٰلِکَ وَےُکَذِّبُہُ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رَوَاےَۃٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ کُتِبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ نَصِےْبُہُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِ کٌ ذالِکَ لَا مَحَالَۃَ الْعَےْنَانِ زِنَاھُمَا النَّظَرُ وَالْاُذُنَانِ زِنَاھُمَا الْاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلاَمُ وَالْےَدُ زِنَاھَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاھَا الْخُطٰی وَالْقَلْبُ ےَھْوِیْ وَےَتَمَنّٰی وَےُصَدِّقُ ذَالِکَ الْفَرْجُ وَےُکَذِّبُہُ۔
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ نے انسان کی تقدیر میں جتنا حصہ زنا کا لکھ دیا ہے وہ ضرور اس سے عمل میں آئے گا، آنکھوں کا زنا تو نامحرم کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز باتیں کرنا اور نفس آرزو و خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی ایک روایت ہے کہ آدمی کی تقدیر میں زنا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے اس کو وہ ضرور عمل میں لائے گا۔ آنکھوں کا زنا (نامحرم کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں سننا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورت سے شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا (نامحرم عورت کو برے ارادہ سے) چھونا ہے اور پاؤں کا زنا (بدکاری کی طرف) جانا ہے اور دل خواہش و آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

تشریح
اصل زنا تو یہی ہے کہ کسی نا محرم عورت سے بدکاری میں مبتلا ہو، لیکن اصطلاح شریعت میں ان حرکات و اعمال کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے جو حقیقی زنا کے لئے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں جو اس تک پہنچاتے ہیں، مثلاً کسی نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا، یا بری نظر سے اس کی طرف دیکھنا، یا گندے خیال کے ساتھ اس کی باتیں سننا، یا برے ارادہ سے اس کا ہاتھ چھونا، یا اسی طرح گندے خیالات کے ساتھ کسی نامحرم عورت کے پاس جانا، یہ سب چیزیں چونکہ حقیقی زنا کی محرک بنتی ہیں جو آگے چل کر بدکاری میں مبتلا کرا دیتی ہیں اس لئے ان کو بھی مجازا زنا کہا جاتا ہے، تاکہ ان حرکات و اسباب کی نفرت و کراہت دلوں میں بیٹھ جائے اور لوگ ان سے بھی بچتے رہیں۔ بہر حال حدیث سے معلوم ہوا کہ جس آدمی کے مقدر میں زنا کا جنتا حصہ لکھ دیا جاتا ہے وہ اسے عمل میں لاتا ہے، اب چاہے تو اس کے مقدر میں محض مجازی زنا لکھا ہو یا حقیقی زنا، لیکن اللہ جن کو ان قبیح افعال سے محفوظ رکھتا ہے وہ ان سے باز رہتے ہیں اور وہ ان چیزوں سے بھی پرہیز کرتے رہتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی معصیت و گناہ کے خیال کا بھی شائبہ پایا جاتا ہو جو گناہ و معصیت کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہوں۔ شرم گاہ کی تصدیق و تکذیب کا مطلب یہ ہے کہ جب نفس انسانی ہوا و ہوس کا غلام بن جاتا ہے اور وہ غلط و حرام فعل کی خواہش کرتا ہے تو اگر شرم گاہ اس کے اس غلط و ناجائز خواہش پر عمل کرتی ہے اور زنا میں مبتلا ہوجاتی ہے تو یہی اس کی تصدیق ہوتی ہے، یا اگر کسی احساس و شعور اور ضمیر اللہ کے عذاب سے لرزاں اور اس کے خوف سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو شرمگاہ نفس کی خواہش کی تکمیل سے انکار کردیتی ہے اور وہ بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا یہ اس کی تکذیب ہوتی ہے۔
Top