مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 302
وَعَنْ بُسْرَۃَ بِنْتِ صَفْوَانَ بْنِ نَوْفَلِ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا مَسَّ اَحَدُکُمْ ذَکَرَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ۔ (رواہ موطا امام مالک و مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد و الجامع ترمذی و السنن نسائی و ابن ماجہ و الدارمی)
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
حضرت بسرہ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو آدمی اپنے ذکر (عضو خاص) کو ہاتھ لگائے تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے۔ (مالک، ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، دارمی)

تشریح
پیشاب گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے میں اختلاف ہے، بلکہ اس مسئلہ میں خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف تھا چناچہ امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے ذکر کو ننگی ہتھیلی سے چھو دیا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، ان کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ذکر کو چھو دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل ما بعد کی حدیث ہے جو قیس بن علی کی روایت کے ساتھ جسے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، مسند ابی حنیفہ میں مذکور ہے اس کے علاوہ امام اعظم (رح) کی دلیل میں اور بہت سی حدیثیں وارد ہیں اس سلسلہ میں مزید تشفی کے لئے شرح ملا علی قاری اور مشکوٰۃ کا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں یعنی بسرہ کی یہ حدیث جو شوافع کی دلیل ہے اور طلق بن علی ؓ کی حدیث جو آگے آرہی ہے اور حنیفہ کی دلیل ہے، درجہ حسن سے باہر نہیں ہیں لیکن حضرت طلق ابن علی ؓ کی حدیث کو حضرت بسرہ ؓ کی حدیث پر ترجیح ہوگی اس لئے کہ حضرت بسرہ ؓ عورت اور حضرت طلق بن علی ؓ مرد ہیں اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کی حدیث قوی ہوتی ہے کیونکہ وہ عوت کی نسبت علم اور حدیث کو خوب اچھی طرح یاد رکھتے ہیں اور ان کی قوت حافظہ عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے چناچہ یہی وجہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔
Top