مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 303
وَعَنْ طَلْقِ بِنْ عَلِیِّ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ مَسِّ الرَّجُلِ ذَکَرَہ، بَعْدَ مَایَتَوَضَّأُ قَالَ وَھَلْ ھَوَ اِلَّا بُضْعَۃٌ مِنْہُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُ وَ رَوَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہُ وَقَالَ الشَّیْخُ الْاِمَامُ مُحِیُّ السُّنَۃِ ھٰذَا مَنْسُوْخٌ لِاَنَّ اَبَاھُرَیْرَۃَ اَسْلَمَ بَعْدَ قُدُوْمِ طَلْقِ وَقَدْرَوَی اَبُوْھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالِ اِذَا اَفْضَی اَحَدُکُمْ بِیَدِہٖ اِلَی ذَکَرِہٖ لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیءٌ فَلْیَتَوَضَّأْ۔ (رَوَاہُ الشَّافِعِیُ وَالدَّارَ قُطْنِیُّ وَرَوَاہُ النَّسَائِیُّ عَنْ بُسْرَۃَ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْی ئً )
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
اور حضرت طلق بن علی المرتضیٰ ) اسم گرامی طلق بن علی اور کنیت ابوعلی ہے ان کی حدیثیں ان کے بیٹے قیس سے مروی ہیں۔ (فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا گیا کہ وضو کرنے کے بعد اگر کوئی آدمی اپنے ذکر کو چھوئے (تو کیا حکم ہے؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا وہ بھی تو آدمی کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے امام محی السنۃ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ حضرت ابوہریرۃ ؓ حضرت طلق بن علی ؓ کے آنے کے بعد اسلام لائے ہیں اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث منقول ہے کہ جب تم میں سے کسی کا ہاتھ اپنے ذکر پر پہنچ جائے اور ہاتھ و ذکر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو تو اس کو چاہئے وضو کرے۔ (شافع دار قطنی اور سنن نسائی نے بسرہ ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے جس میں لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیئٌ کے الفاظ مذکور ہیں۔

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن کے گوشت کے دیگر ٹکڑے مثلاً ہاتھ پاؤں کان ناک وغیرہ ہیں اسی طرح ذکر بھی بندہ کے گوشت ہی کا ایک ٹکڑا ہے اور جب ان دوسرے ٹکڑوں اور حصوں کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پھر ذکر کے چھو جانے سے کیوں وضو ٹوٹے گا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مس ذکر ناقص وضو نہیں ہے۔ امام محی السنہ (رح) کا قول در اصل حضرات شوافع کی ترجمانی ہے اس کا مطب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرۃ و طلق بن علی ؓ کے بہت بعد اسلام لائے ہیں، کیونکہ حضرت طلق ؓ ہجرت کے فورًا بعد جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور حضرت ابوہریرہ ؓ سن ٧ ھ میں غزوہ خبیر کے موقع پر اسلام لائے ہیں اس لئے حضرت طلق بن علی ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے حدیث سننا پہلے ہوا اور حضرت ابوہریرہ ؓ کا سننا بعد میں ہوا ہوگا، لہٰذا حضرت طلق ؓ کی حدیث منسوخ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ناسخ ہوئی۔ حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت طلق کے اسلام لانے کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام لانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے یہ حدیث سنی بھی بعد میں ہو شوافعہ کا یہ دعویٰ تو جب صحیح ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ثابت ہو کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام لانے سے پہلے ہی حضرت طلق ؓ انتقال فرما چکے تھے یا یہ کہ اپنے وطن کو چلے گئے تھے کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی کبھی حاضر نہیں ہوئے، اس لئے کہ اگر حضرت طلق ؓ، حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام لانے سے پہلے انتقال فرما جاتے ہیں یا اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتے تو پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام لانے کے بعد کچھ نہیں سن سکتے تھے مگر اب تو یہ ممکن ہے کہ حضرت طلق ؓ نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام لانے کے بعد ہی سنی ہو لہٰذا شوافع کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ حضرت مظہر نے ایک اچھی اور فیصلہ کن بات کہہ دی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہوگیا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو ہے اور حضرت طلق ؓ کی حدیث مس ذکر کو ناقض وضو نہیں کہتی لہٰذا اس تعارض کی شکل میں ہمیں چاہئے کہ ہم دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی طرف رجوع کریں چناچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت ابودرداء حضرت حذیفہ اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال ثابت ہیں کہ ذکر چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لئے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حنفیہ ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
Top