مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 308
وَعَنْہُ قَالَ اُحْدِیَتْ لَہ، شَاۃٌ فَجَعَلَھَا فِی الْقِدْرِ فَدَخَلَ رَسُوْلُ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَا ھٰذَا یَا اَبَارَافِعِ فَقَالَ شَاۃٌ اُھْدِیَتْ لَنَا یَا رَسُوْلُ اﷲِ فَطَبَخْتُھَا فِی الْقِدْرِ فَقَالَ نَاوِلنِْی الدْرَاعَ یَا اَبَارَافِعِ فَنَا وَلْتُہُ الذَّرَاعَ ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِی لذْرَاعَ الْآخَرَ فَنَا وَلْتُہُ الذِّرَاعَ الْآخَرَ ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِی الذِّرَاعَ الْاٰخَرَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنَّمَا لِلشَّاۃِ ذِرَاعَانِ فَقَالَ لَہ، رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَّا اِنَّکَ لَوْ سَکَتَّ لَنَا وَلْتَنِیْ ذِرَاعًا فَذِرَاعًا مَاسَکَتَّ ثُمَّ دَعَا بِمَا ءِ فَتَمَضْمَضَ فَاہُ وَغَسَلَ اَطْرَافَ اَصَابِعِہٖ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی ثُمَّ عَادَاِلَیْھِمْ فَوَجَدَ عِنْدَھُمْ لَحْمًا بَارِدًافَاَکَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَسَلَّی وَلَمْ یَمَسَّ مَآئً رَوَاہُ اَحْمَدُ وَرَوَاہُ الدَّارِمِیُّ عَنْ اَبِیْ عَبَیْدِ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ ثُمَّ دَعَا بِمَاءِ اِلٰی آخِرِہٖ۔
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
اور حضرت ابورافع ؓ راوی ہیں کہ (ایک دن) میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری بھیجی گئی، چناچہ میں نے اس (کے گوشت) کو (پکانے کے لئے) ہانڈی میں ڈال دیا (اسی اثناء میں) رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا ابورافع یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا (یا رسول اللہ! بکری کا گوشت ہے جو میرے پاس ہدیہ کے طور پر آیا تھا اسی کو میں نے ہانڈی میں پکا لیا ہے آپ نے فرمایا ابورافع! ایک دست دو! میں نے دست خدمت اقدس میں پیش کردیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا دوسرا دست دو میں نے دوسرا دست بھی خدمت اقدس میں پیش کردیا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا ایک دست اور دو میں عرض کیا یا رسول اللہ! بکری کے تو دو ہی دست ہوتے ہیں (اور وہ دونوں ہی آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں اب کہاں سے لاؤں) سرکار دو عالم ﷺ نے ان سے فرمایا ابورافع! اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دئیے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے، پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور منہ دھویا (یعنی کلی کی) پھر انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہوئے اور پھر نماز پڑھ کر ابورافع کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے نزدیک ٹھنڈا گوشت دیکھا چناچہ آپ ﷺ نے اسے کھایا اس کے بعد مسجد تشریف لے گئے اور (شکرانہ) کی نماز پڑھی اور اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے مگر ثم دعا بماء سے آخر تک ذکر نہیں کیا ہے۔

تشریح
رسول اللہ ﷺ کو دست کا گوشت بہت زیادہ مرغوب تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دست کا گوشت زیادہ قوت بخش ہوتا ہے اس لئے آپ ﷺ اسے پسند فرماتے تھے تاکہ جسمانی طاقت و قوت زیادہ حاصل ہو جس کی وجہ عبادت الٰہی بخوبی ادا ہو سکے۔ ارشاد اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دیئے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم چپ رہتے اور میں جس طرح مانگتا جا رہا تھا تم اسی طرح اٹھا (اٹھا کردیتے رہتے تو تم دیکھ لیتے کی خداوند کریم اپنی قدرت سے معجزہ کے طور پر بےحد و بےحساب دست مہیا فرماتا، لیکن چونکہ تمہاری نظر صرف ظاہر پر تھی اور تم نے یہ سوچ کر کہ بکری کے صرف دو ہی دست ہوتے ہیں اب کہاں سے لا کر دوں گا اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور جب تم نے خود ہی ہاتھ کھینچ لیا اور یہ جواب دے دیا تو ادھر سے بھی امداد غیبی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واقعی سب دست ختم ہوگئے یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہوسکتا ہے کہ جب باری تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی خواہش کی تکمیل کی خاطر غیبی طور پر بکری کے دست کا انتظام کیا جا رہا تھا تو محض ابورافع کے جواب دے دینے سے وہ سلسلہ رک کیوں گیا اور پھر دست ظاہر کیوں نہیں فرمائے گئے۔ جواب یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی جانب سے تمام اعزازو کرامات اور فضل و عنایات محض خالص نیت اور توجہ الی اللہ کی بناء پر ہوتی ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کی توجہ الی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضوری قلب میں ابورافع کے جواب سے کچھ فرق آگیا ہو اس لئے آپ ان کے جواب کے رد کی طرف متوجہ ہوگئے تھے، چناچہ ادھر سے بھی ہاتھ روک لیا گیا اور دست ختم ہوگئے۔
Top