مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 402
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَھُوَ یَتَوَضَّأُ فَقَالَ مَاھٰذَا السَّرَفُ یَا سَعْدُ قَالَ اَفِی الْوُضُوْءِ سَرَفٌ قَالَ نَعَمْ وَ اِنْ کُنْتَ عَلَی نَھْرٍ جَارٍ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و ابن ماجۃ)
وضو کی سنتوں کا بیان
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ کا گزر حضرت سعد ؓ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کر رہے تھے) آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) فرمایا اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)

تشریح
یہ حدیث اس بات پر تنبیہ کر رہی ہے کہ وضو و غسل میں پانی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اسراف ہے اور اسراف شریعت کی نگاہ میں کوئی محبوب چیز نہیں ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت سعد ؓ کو دیکھا کہ وضو میں پانی زیادہ خرچ کر رہے ہیں تو آپ ﷺ نے انہیں تنبیہ فرمائی اس پر حضرت سعد ؓ کو بڑا تعجب ہوا کہ پانی کوئی نایاب اور کم یاب چیز تو ہے نہیں پھر اس میں اسراف کے کیا معنی؟ اسی بنا پر انہوں نے سوال بھی کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسراف تو اسے بہی کہیں گے کہ تم نہر جاری پر بیٹھ کر وضو کرو اور پانی زیادہ خرچ کرو جب کہ نہر یا دریا وغیرہ سے کتنا بھی پانی خرچ کردیا جائے اس میں کوئی کمی واقعی نہیں ہوسکتی۔ اس جملہ کی تشریح علماء کرام یہ کرتے ہیں کہ نہر جاری پر اسراف اس لئے ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی حدود شریعت سے تجاوز کر کے ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرتا ہے تو اس میں عمر اور وقت یوں ہی ضائع ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اسراف ہے۔ علامہ طیبی نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اس سے اس بات میں مبالغہ منظور ہے کہ جس چیز میں اسراف متصور نہیں ہے جب اس میں بھی اسراف ہوسکتا ہے تو پھر ان چیزوں کا کیا حال ہوگا جس میں اسراف واقعۃً ہوتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ وضو اور غسل وغیرہ میں ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرنا اسراف میں شامل ہے اور یہ چیز مناسب نہیں ہے۔
Top