مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 407
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَتْ اُمُّ سُلَےْمٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اللّٰہَ لاَ ےَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ فَھَلْ عَلَی الْمَرْأَۃِ مِنْ غُسْلٍ اِذَا احْتَلَمَتْ قَالَ نَعَمْ اِذَا رَأَتِ الْمَآءَ فَغَطَّتْ اُمُّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاوَجْھَہَا وَقَالَتْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوَ تَحْتَلِمُ الْمَرْاَۃُ قَالَ نَعَمْ تَرِبَتْ ےَمِےْنُکِ فَبِمَ ےُشْبِھُھَا وَلَدُھَا (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَزَادَ مُسْلِمٌ بِرِوَاےَۃِ اُمِّ سُلَےْمٍ اَنَّ مَآءَ الرَّجُلِ غَلِےْظٌ اَبْےَضُ وَمَآءَ الْمَرْاَۃِ رَقِےْقٌ اَصْفَرُ اَےُّھُمَا عَلَا اَوْ سَبَقَ ےَکُوْنُ مِنْہُ الشَّبَہُ۔
غسل کا بیان
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلیم ( آپ کے نام میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ علماء نے سلمہ کچھ نے رملہ اور بعض نے ملیکہ لکھا ہے بہر حال حضرت انس ؓ کی والدہ محترمہ ہیں)۔ نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ حق کے معاملہ میں حیاء نہیں کرتا (لہٰذا یہ بتائیے کہ) عورت پر غسل واجب ہے جب کہ اس کو احتلام ہو۔ (یعنی خواب میں مجامعت دیکھے) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! جب کہ وہ پانی (منی) کو دیکھے یہ سن کر ام سلمہ نے اپنا منہ (شرم کی وجہ سے) ڈھانک لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ (یعنی کیا مرد کی طرح عورت کے بھی منی ہوتی ہے اور نکلتی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! خاک آلودہ ہو تیرا داہنا ہاتھ (اگر ایسا نہ ہوتا تو) پھر اس کا بچہ اس کے مشابہ کیونکر ہوسکتا تھا۔ اور امام مسلم (رح) نے ام سلیم ؓ کی روایت میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا مرد کی منی گاڑھی سفید ہوتی ہے اور عورت کی منی پتلی زرد ہوتی ہے لہٰذا ان میں جو منی غالب ہو یا سبقت کرے تو (بچہ کی) مشابہت اسی کے ساتھ ہوتی ہے۔

تشریح
چونکہ مسئلہ ذرا نازک اور عرفاً خلاف شرم و حیاء تھا اس لئے ام سلیم ؓ نے پہلے تمہید کے طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ حق کہنے میں حیاء نہیں کرتا یعنی اللہ نے اس سے منع کیا ہے کہ حق بات پوچھنے میں شرم و حیاء کیا جائے، پھر اس کے بعد انہوں نے اصل مسئلہ دریافت کیا۔ آپ ﷺ کے جواب ما مطلب یہ ہے کہ محض مجامعت کا خواب دیکھ لینے سے ہی غسل واجب نہیں ہوجاتا جب تک انزال نہ ہو یا صبح اٹھنے کے بعد اس کی کوئی علامت نہ پائے یعنی سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے یا بدن پر منی دیکھی جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ خاک آلود ہو تیرا داہنا ہاتھ یہ شدت فقر سے کنایہ ہے گویا یہ ایک قسم کی بدعا ہے۔ لیکن اس کا استعمال حقیقی معنی میں نہیں بلکہ ایک ایسا جملہ ہے جو اہل عرب کے یہاں تعجب کے وقت بولتے ہیں، اس طرح اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ام سلمہ! بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہہ رہی ہو؟ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتیں کہ اگر عورت کے منی نہ ہوتی تو پھر اکثر بچے جو اپنی ماں کے مشابہ ہوتے ہیں وہ کس طرح ہوتے؟ مرد کی منی کی طرح عورت کی بھی منی ہوتی ہے اور پھر دونوں کی منی سے بچہ کی تخلیق ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے منی کے جو رنگ بیان کئے ہیں وہ اکثر کے اعتبار سے ہے، یعنی اکثر و تندرست و صحت مند عورت کی منی کے رنگ ایسے ہوتے ہیں، کیونکہ بعض مردوں کی منی کسی مرض کی بنا پر پتلی یا کثرت مباشرت کی وجہ سے سرخ ہوتی ہے، اس طرح بعض عورتوں کی منی قوت و طاقت کی زیادتی کی وجہ سے سفید بھی ہوتی ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مباشرت کے وقت اگر مرد اور عورت دونوں کی منی ساتھ ہی گر کر رحم مادہ پر پہنچے تو دونوں میں سے جس کی منی بھی غالب ہوگی یا ان دونوں سے جس کی منی سبقت کرے گی یعنی ایک دوسرے سے پہلے گر کر رحم مادر میں پہنچے گی بچہ اسی کے مشابہ ہوگا۔
Top