مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 410
وعَنْ عَآئِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ اِنَّ امْرَاَۃًمِّنَ الْاَنْصَارِ سَاَلَتِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلمعَنْ غُسْلِھَا مِنَ الْمَحِےْضِ فَاَمَرَھَا کَےْفَ تَغْتَسِلُ ثُمَّ قَالَ خُذِیْ فُرْصَۃً مِّنْ مِّسْکٍ فَتَطَھَّرِیْ بِھَا قَالَتْ کَےْفَ اَتَطَھَّرُ بِھَا فَقَالَ تَطَھِّرِیْ بِھَا قَالَتْ کَیْفَ اَتَطَھَّرُبِھَا قَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ تَطَہِّرِی بِھَافَاجْتَذَبْتُھَا اِلَیَّ فَقُلْتُ تَتَبَّعِیْ بِھَا اَثَرَ الدَّمِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
غسل کا بیان
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ (ایک دن) ایک انصاری عورت نے سرکار دو عالم ﷺ سے اپنے غسل حیض کے بارے میں پوچھا، چناچہ آپ ﷺ نے اسے غسل کا حکم دیا کہ کس طرح غسل کیا جائے۔ (یعنی پہلی حدیثوں میں غسل کی جو کیفیت گزری ہے آپ ﷺ نے وہ بیان فرمائی اور پھر فرمایا کہ مشک میں (بھگوئے ہوئے کپڑے) کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو، اس نے کہا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ اس نے پھر پوچھا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ (یعنی اللہ پاک ہے)۔ تم اس سے پاکی حاصل کرو، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کے انہیں الفاظ کو بار بار سن کر) میں نے اس عورت کو اپنی جانب کھینچ لیا اور اس سے کہا کہ (تم اس کپڑے کو) خون کی جگہ (یعنی شرم گاہ پر) رکھ لو!۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس قسم کے مسائل جہاں آرہے ہیں۔ وہاں آپ حدیث کا اسلوب دیکھ رہے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ ایسے مسائل کو کس انداز سے بیان فرماتے ہیں، بات وہی ہے کہ ایک طرف تو مسائل شرعیہ کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ذمہ داری آپ ﷺ کے کاندھوں پر ہے جس میں شرم و حیاء کی وجہ سے کسی اخفاء کی گنجائش نہیں ہے دوسری طرف آپ ﷺ کی شرم و حیاء کے وہ فطری تقاضے ہیں جو خلاف ادب و تہذیب جملوں کی ادائیگی میں حائل ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ ﷺ ان مسائل کے بیان میں ایسی راہ اختیار کرتے ہیں جو شرم و حیاء کے دائرے سے سرمو متجاوز نہیں ہوتی اور مسائل کی وضاحت بھی حتی الامکان ہوجاتی ہے۔ اب آپ یہیں دیکھئے کہ ایک سائلہ عورتوں کے مسئلے کی وضاحت چاہتی ہے، آپ ﷺ اسے جواب دیتے ہیں اور پھر اس سلسلے میں نظامت و لطافت کے ایک ٰخاص طریقہ کی طرف اس کی راہنمائی فرمانا چاہتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ اشاروں اشاروں میں اسے سمجھا رہے ہیں، سائلہ زیادہ سمجھ کا ثبوت نہیں دیتی ہے، آپ ﷺ دوبارہ اپنے جملوں کو دہراتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائے مگر وہ مزید وضاحت چاہتی ہے تو آپ پھر انتہائی تعجب سے فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ! تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ یعنی تعجب کی بات ہے کہ تم اتنے سیدھے سادھے اور ظاہر مسئلہ کو نہیں سمجھ پا رہی ہو۔ یہ کوئی ایسا باریک مسئلہ نہیں ہے، کوئی خاص نکتہ نہیں ہے جسے سمجھنے میں اعلیٰ غور و فکر کی ضرورت ہو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اس وقت ذکاوت و ذہانت کا بہترین ثبوت دیتی ہیں، انہوں نے تاڑ لیا کہ ادھر تو عورت آنحضور ﷺ کے مقصد اور مطلب تک پہنچ نہیں پا رہی ہے۔ ادھر آپ ﷺ کی شرم و حیاء اس سے آگے بڑھ کر مزید وضاحت کی اجازت نہیں دیئے جا رہی ہے، چناچہ آپ اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور پھر اسے رسول اللہ ﷺ کا مقصد و ضاحت کے ساتھ سمجھاتی ہیں۔ حدیث کے الفاظ خذی فرصۃ من مسک فتطھری میں لفظ مسک میم کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی مشک کے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مشک کا ایک بڑا ٹکڑا یا مشک میں بھیگے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑے کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو۔ ایک روایت میں میم کے زبر کے ساتھ بھی آیا ہے جس کے معنی چمڑے کے ہیں۔ لیکن روایت کے مطابق اور موقع کی مناسبت سے میم کے زیر کے ساتھ یعنی مشک کے معنی زیادہ بہتر اور اولیٰ ہیں۔
Top