مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 436
وَعَنْ عَمَّارِ بْنِ یَا سِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃٌ لَا تَقْرَ بُھُمُ الْمَلَائِکَۃُ جِیْفَۃُ الْکَافِرِ وَالْمُتَضَمِّخُ بِالْخُلُوْقِ وَالْجُنُبُ اِلَّا اَنْ یَتَوَضَّأَ۔ (رواہ ابواؤد)
غسل کا بیان
اور حضرت عمار بن یاسر ؓ (اسم گرامی عمار بن یا سر اور کنیت ابوالیقطان ہے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی، ان کی والدہ سمیہ تھیں اور وہ پہلی خاتون تھیں جو اللہ عزو جل کی راہ میں شہید کی گئیں، یہ اور ان کی والدہ اور ان کے والد سب کے سب پہلے ایمان لانے والوں میں ہیں حضرت عمار کا شمار صحابہ کرام ؓ کی جماعت میں ہوتا ہے جو اسلام لانے کی وجہ سے ظلم و ستم کی ہر بھٹی میں ڈالے گئے مگر جب وہاں سے نکلے تو کندن ہو کر نکلے۔ حضرت عمار اس وقت اسلام لائے تھے جب کہ رسول اللہ ﷺ ارقم کے گھر میں پوشیدہ تھے۔ یہ اور حضرت صہیب بن سنان دونوں ساتھ ہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عمار بن یا سر اللہ کی راہ میں بہت زیادہ ستائے گئے، یہاں تک کہ جب مشرکین مکہ انہیں مارتے مارتے تھک گئے اور یہ اپنے ایمان سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹتے تو انہیں آگ میں جلایا کرتے تھے اسی ثناء میں رسول اللہ ﷺ کا گزر ان کی طرف ہوا کرتا تو آپ انہیں آگ میں جلتا ہوا دیکھ کر اپنا دست مبارک ان کے اوپر پھیر کر فرمایا کرتے تھے کہ اے آگ! تو عمار پر ایسی ہی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا جسیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ہوئی تھی۔ جب آپ زخمی ہوئے تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ مجھے انہی کپڑوں کے ساتھ دفن کرنا کیونکہ میں انہی کپڑوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں گا، چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو ان ہی کپڑوں میں دفن کیا۔ ربیع الاول ٣٧ ھ میں ٩٤ برس کی عمر میں جنگ صفین کے دوران آپ نے شہادت پائی۔ اسد الغابہ) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ رحمت کے فرشتے ان کے قریب نہیں آتے۔ (١) کافر کا بدن (٢) خلوق کا ملنے والا (٣) جنبی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (سنن ابوداؤد)

تشریح
جیفہ سے مراد کافر کا بدن ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، ویسے تو اصل میں جیفہ مردار کو کہتے ہیں ظاہر ہے کہ کافر بھی بمنزلہ مردار کے ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ نجاست مثلا ًشراب اور سود وغیرہ سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے نجس و ناپاک ہوتا ہے۔ خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے بنتی ہے اور چونکہ رنگ دار ہوتی ہے اس لئے عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے مردوں کو اس کا لگانا ممنوع ہے صرف عورتیں اسے استعمال کرسکتی ہیں، اس لئے اگر کوئی مرد اسے لگا لیتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہیں جاتے کیونکہ اس میں رعونیت پائی جاتی ہے۔ اور عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔ دراصل اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی سنت کے خلاف کام کرتا ہے تو اگرچہ وہ بظاہر بازیب وزینت او خوشبو سے معطر ہوتا ہے نیز لوگوں میں صاحب عزت و احترام بھی ہوتا ہے مگر سنت کے خلاف عمل کی وجہ سے حقیقت میں وہ نجس اور کتے سے بھی زیادہ خسیس ہوتا ہے۔ جنبی کے حق میں آپ ﷺ کے ارشاد و تہدید اور زجر و توبیخ کے لئے ہے تاکہ جنبی غسل جنابت میں تاخیر نہ کریں کیونکہ اس سے جنبی رہنے کی عادت پڑجاتی ہے۔
Top