مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 448
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَآءِ یَکُوْنُ فِی الْفَلاۃِ مِنَ الْاَرْضِ وَمَا یَنُوْبُہ، مِنَ الدَّوَابِ وَ السِّبَاعِ فَقَالَ اِذَا کَانَ الْمَآءُ قُلَّتَیْنِ لَمْ یَحْمِلِ الخَبَثَ۔ (رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَ التِّرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَفِی اُخْرٰے لِاَبِی دَاؤدَ فَاِنَّہُ لَا یَنْجَسُ)
پانی کے احکام کا بیان
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے اس پانی کا حکم پوچھا گیا جو جنگل میں زمین پر جمع ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر چو پائے درندے اس پر آتے جاتے رہتے ہیں (یعنی جانور وغیرہ اس پانی پر آکر اسے پیتے ہیں اور اس میں پیشاب وغیرہ بھی کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر پانی دو قلوں کے برابر ہو تو وہ ناپاکی کو قبول نہیں کرتا (یعنی نجاست وغیرہ پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا)۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، داری، سنن ابن ماجہ اور سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ )

تشریح
قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں جس میں اڑھائی مشک پانی آتا ہے قلتین یعنی دو مٹکوں میں پانچ مشک پانی سماتا ہے دو مشکوں کے پانی کا وزن علماء کرام نے سوا چھ من لکھا ہے اس حدیث کے پیش نظر حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی دو مٹکوں کے برابر ہو اور اس میں نجاست و غلاظت گرجائے تو جب تک پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام کا بہت زیادہ اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں؟ چناچہ سفر السعادہ کے مصنف جو ایک جلیل القدر محدث ہیں لکھتے ہیں کہ علماء کرام کی ایک جماعت کا قول تو یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے مگر ایک دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ علی بن مدینی (رح) نے جو جلیل القدر علماء اور ائمہ حدیث کے امام اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری (رح) کے استاد ہیں لکھتا ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہی نہیں ہے۔ نیز علماء کرام لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اجماع صحابہ کے برخلاف ہے کیونکہ ایک مرتبہ چاہ زمزم میں ایک حبشی گرپڑا تو حضرت بن عباس اور حضرت ابن زبیر ؓ نے یہ حکم دیا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے اور یہ واقعہ اکثر صحابہ کرام ؓ کے سامنے ہوا اور کسی نے بھی اس حکم کی مخالفت نہیں کی۔ پھر اس کے علاوہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں پانی کی حد اور مقدار متعین کرنے کے سلسلے میں نہ تو حنفیہ کو اور نہ ہی شوافع کو ایسی کوئی صحیح حدیث ہاتھ لگی ہے جس سے معلوم ہو کہ نجاست پڑنے سے کتنی مقدار کا پانی ناپاک ہوجاتا ہے اور کتنی مقدار کا ناپاک نہیں ہوتا۔ امام طحاوی (رح) جو فن حدیث کے ایک جلیل القدر امام اور حنفی مسلک کے تھے فرماتے ہیں کہ حدیث قلتین (یعنی یہ حدیث) اگرچہ صحیح ہے لیکن اس پر ہمارے عمل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں پانی کی مقدار دو قلے بتائی گئی ہے اور قلے کے کئی معنی آتے ہیں، چناچہ قلہ مٹکے کو بھی کہتے ہیں اور مشک کو بھی، نیز پہاڑ کی چوٹی بھی قلہ کہلاتی ہے، لہٰذا جب یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں حدیث میں قلہ سے کیا مراد ہے تو اس پر عمل کیسے ہوسکتا ہے؟ بہر حال اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جو علماء صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہیں ان کا مسلک تو یہ ہے کہ نجاست وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی کم ہو یا زیادہ ہو، جاری ہو یا ٹھہرا ہوا ہو اور خواہ نجاست پڑنے سے پانی کا رنگ مزہ اور بو متغیرہ ہو یا نہ ہو یہ حضرات دلیل میں اس کے بعد آنے والی حدیث (نمبر ٥) کے یہ الفاظ پیش کرتے ہیں کہ الحدیث ( اِنَّ لْمَآءَ طُھُورٌّ لَا یُنَجِّسُہٌ شَیْی ءٌ (یعنی پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی) حالانکہ مطلقًا پانی نہیں ہے بلکہ زیادہ پانی ہے۔ ان کے علاوہ تمام علماء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی زیادہ ہوگا تو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوگا اور اگر پانی کم ہے تو نجاست پڑنے سے ناپاک ہوجائے گا۔ اب اس کے بعد چاروں اماموں کے ہاں زیادہ اور کم کی مقدار میں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ نجاست پڑنے سے جس پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو وہ ماء کثیر (زیادہ پانی) کہلائے گا اور جو پانی متغیر ہوجائے وہ ماء قلیل (کم پانی) کے حکم میں ہوگا۔ حضرت امام شافعی (رح) اور حضرت امام احمد (رح) کا مسلک اس حدیث کے پیش نظر یہ ہے جو پانی دو قلوں کے برابر ہوگا اسے ماء کیثر کہیں گے اور جو پانی دو قلوں کے برابر نہ ہوگا وہ ماء قلیل کہلائے گا۔ حضرت امام اعظم (رح) اور ان کے ماننے والے یہ فرماتے ہیں کہ۔ اگر پانی اتنی مقدار میں ہو کہ اس کے ایک کنارے کو ہلانے سے دوسرا کنارہ نہ ہلے تو وہ ماء کثیر ہے اور اگر دوسرا کنارہ ہلنے لگے تو وہ ماء قلیل ہے۔ بعد کے بعض حنفی علماء نے دہ در دہ کو ماء کیثر کہا ہے یعنی اتنا بڑا حوص جو دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا ہو اور اتنا گہرا ہو کہ اگر چلو سے پانی اٹھائیں تو زمین نہ کھلے ایسے حوض کو دہ در دہ کہتے ہیں۔ چناچہ ایسے حوض کے پانی میں جو دہ در دہ ہو ایسی نجاست پڑجائے جو پڑجانے کے بعد دکھلائی نہ دیتی ہو جیسے پیشاب، خون، شراب وغیرہ تو چاروں طرف وضو کرنا درست ہے جدھر سے چاہے وضو کرسکتا ہے، البتہ اگر اتنے بڑے حوض میں اتنی جناست پڑجائے کہ پانی کا رنگ یا مزہ بدل جائے یا بدبو آنے لگے تو پانی ناپاک ہوجائے گا اور اگر حوض کی شکل یہ ہو کہ لمبا تو وہ بیس ہاتھ اور چوڑا پانچ ہاتھ ہو یا ایسے ہی لمبا پچیس ہاتھ ہو اور چوڑا چار ہاتھ ہو تو یہ دہ دردہ کی مثل ہی کہلائے گا۔
Top