مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 449
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدِنِ الْنُورْرِیۤ قَالَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَنَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَا عَۃَ وَھِیَ بِئْرٌ یُلْقَی فِیْھَا الْحِیَضُ وَلُحُوْمُ الْکِلَابِ وَالنَّتْنُ فَقَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الْمَاءَ طُّھُوْرٌ لاَ یُنَجِّسُہ، شَیْی ئٌ۔(رَاوَہُ احمد بن حنبل و الترمذی و ابوداؤد والنسائی )
پانی کے احکام کا بیان
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ سے کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم بضاعہ کے کنویں (کے پانی) سے وضو کرسکتے ہیں؟ (جب کہ) اس کنویں میں حیض کے (خون میں بھرے ہوئے) کپڑے کتوں کے گوشت اور گندگی ڈالی جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (اس کنویں کا) پانی پاک ہے (جب تک کہ اس کے رنگ، مزہ اور بو میں فرق نہ آئے) اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی)

تشریح
بیر بضا عہ مدینہ کے ایک کنویں کا نام ہے وہ ایک ایسی جگہ واقع تھا جہاں نالے کی رو آتی تھی اس نالے میں جو گندگی اور غلاظت ہوتی تھی وہ اس کنویں میں پڑتی تھی مگر کہنے والے نے کچھ اس انداز سے بیان کیا جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ لوگ خود اس میں نجاست ڈالتے تھے، حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اس قسم کی گندگی اور غلط چیزوں کا رتکاب تو عام مسلمان بھی نہیں کرسکتا چہ جائے کہ وہ ایسی غیر شرعی غیر اخلاقی چیز کا ارتکاب کرتے جو افضل المو منین تھے۔ بہر حال! اس کنویں میں بہت زیادہ پانی تھا ور چشمہ دار تھا اس لئے جو گندگی اس میں گرتی تھی بہہ کر نکل جاتی تھی بلکہ علماء کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس وقت کنواں جاری تھا اور نہر جاری کی طرح ایک باغ میں بہتا بھی تھا چناچہ جب آپ ﷺ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے کنویں کی اس صفت کی وجہ سے اس کے پانی کے بارے میں وہی حکم فرمایا جو ماء کثیر یا جاری پانی کا ہوتا ہے۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ نجاست پڑنے سے کوئی پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ تھوڑا پانی ہو یا زیادہ پانی بلکہ یہ حکم ماء کثیر یعنی زیادہ پانی کا ہے ماء قلیل یعنی کم پانی کا یہ حکم نہیں ہے۔ حنفیہ کے بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ چشمہ دار کنواں بھی جاری پانی کا حکم رکھتا ہے یعنی جو حکم بہنے والے پانی کا ہوتا ہے وہی چشمہ دار کنویں کا ہوتا ہے۔
Top