مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 451
وَعَنْ اَبِیْ زَیْدٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہ، لَیْلَۃَ الْجِنِّ مَا فِیْ اِدَاوَتِکَ قَالَ قُلْتُ نَبِیْذٌ قَالَ تَمْرَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّمَآءٌ طُھُوْرٌہ رَوَاہُ اَبُوْدٰؤدَ وَزَادَ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ فَتَوَضَّأَ مِنْہُ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ اَبُوْزَیْدٍ مَجْھُوْلٌ وَصَحَّ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِا ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ لَمْ اَکُنْ لَیْلَۃً الْجِنِّ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (رواہ مسلم)
پانی کے احکام کا بیان
اور حضرت ابوزید ؓ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے لیلۃ الجن (یعنی جن کی رات) میں ان سے پوچھا کہ تمہارے لوٹے میں کیا ہے! عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ نبیذ (یعنی کھجوروں کا شربت) ہے آپ ﷺ نے فرمایا کھجوریں پاک ہیں اور پانی پاک کرنے والا ہے (ابوداؤد) امام احمد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ پس آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا نیز امام ترمذی (رح) نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ابوزید کا پتہ نہیں کہ یہ کون ہیں ہاں حضرت علقمہ (رح) البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے صحیح طور پر یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ لیلۃ الجن کو میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
لیلۃ الجن اس رات کو فرماتے ہیں جس میں جنات کی ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی تھی آپ ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ان کے سامنے قرآن کریم پڑھا تھا جس کے بعد وہ جماعت اپنی قوم میں گئی اور اسلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات سے انہیں آگاہ کیا اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورت جن میں بھی کیا گیا ہے۔ نبیذ تمر کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھوارے پانی میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور انہوں چند روز تک اسی طرح پانی میں رہنے دیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں کا شربت سا بن جاتا ہے اور اس میں ایک قسم کی تیزی بھی آجاتی ہے، یہ شربت جب تک تیز و تند نہیں ہوتا حلال رہتا ہے چناچہ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے یہ نیند تمر بنایا جاتا تھا۔ نبیذ تمر سے وضو کرنا مختلف فیہ ہے، چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر وضو کے لئے خاص پانی نہ ملے تو نبیذ تمر سے وضو کیا جاسکتا ہے اس کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) اس مسلک سے اختلاف کرتے ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے یہ حدیث چونکہ حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے شوافع اس حدیث کو ضعیف ثابت کرتے ہیں چناچہ حضرت امام ترمذی (رح) بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ حدیث کے راوی ابوزید غیر معروف ہیں اس لئے ان کی روایت کردہ حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی، امام ترمذی (رح) دوسری چیز یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ لیلۃ الجن میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔ اس کی شہادت میں وہ حضرت علقمہ (رح) کی ایک روایت پیش کر رہے ہیں جو حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ ہی سے مروی ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب عبداللہ بن مسعود ؓ کا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اس رات میں ہونا ہی ثابت نہیں ہے تو ابوزید کی یہ روایت یقینا صحیح نہیں ہوسکتی۔ لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حضرت امام اعظم (رح) کا مسلک برحق ہے کیونکہ حضرت امام ترمذی (رح) کا یہ کہنا ابوزید مجہول راوی ہیں حدیث کی حیثیت پر کچھ اثر انداز نہیں ہوتا اس لئے کہ حدیث کے راویوں کے غیر معروف ہونے کا دعویٰ دوسرے طریقوں سے غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے، بالکل غلط ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی موجودگی دیگر روایتوں سے بھی تحقیق کے ساتھ ثابت ہے چناچہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اس شب میں جنات کو سلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات بتانے میں مشغول ہوئے تو اپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو ایک جگہ بٹھا دیا اور ان کے اردگرد لکیر کھینچ کر ایک دائرہ بنایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اس دائرے سے باہر نہ نکلیں۔ حضرت علقمہ (رح) کی روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اس کا مطلب حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی موجودگی کا سرے سے انکار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ جنات سے ہم کلام تھے اس وقت حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ آپ ﷺ کے پاس حاضر نہ تھے، یا یہ کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت جنات کے پاس تشریف لے جا رہے تھے عبداللہ ابن مسعود ؓ اس وقت آپ ﷺ کے پاس نہیں تھے بلکہ آخر شب میں جا کر آپ ﷺ سے ملاقات کی۔ وا اللہ اعلم
Top