مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 453
وَعَنْ دَاؤدَ بْنَ صَالِحِ بْنِ دِیْنَارٍعَنْ اُمِّہٖ اَنَّ مَوْلَا تَھَا اَرْسَلَتْھَا بِھَرِ یْسَۃٍ اِلٰی عَائِشَۃَ قَالَتْ فَوَجَدْ تُّھَا تُصَلِّیْ فَاَشَارَتْ اِلَیَّ اَنْ ضَعِیْھَا فَجَآئَتْ ھِرَّۃٌ فَاَکَلَتْ مِنْھَا فَلَمَّا انْصَرَفَتْ عَائِشَۃُ مِنْ صَلَاتِھَا اَکَلَتْ مِنْ حَیْثُ اَکَلَتِ الْھِرَّۃُ فَقَالَتْ اِنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّھَا لَیْسَتْ بِنَجَسٍ اِنَّھَا مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ وَاِنِّیْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمیَتَوَضَّأُ بِفَضْلِھَا۔ (رواہ ابوداؤد)
پانی کے احکام کا بیان
حضرت داؤد بن صالح بن دینار اپنی والدہ محترمہ سے نقل کرتے ہیں کہ (ایک روز) انہیں ان کی آزاد کرنے والی مالکہ نے ہریسہ (یعنی حریرہ) دیکر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت اقدس میں بھیجا ان کی والدہ فرماتی ہیں کہ میں نے (وہاں پہنچ کر) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اشارے سے اسے رکھ دینے کے لئے مجھے کہا (چنانچہ میں نے ہریسہ کا برتن رکھ دیا اتنے میں) ایک بلی آکر اس میں سے کھانے لگی۔ حضرت عائشہ ؓ جب نماز سے فارغ ہوئیں تو حریرہ کو بلی نے جس طرف سے کھایا تھا اسی طرف سے انہوں نے بھی کھالیا پھر فرمایا کہ سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد ہے کہ بلی ناپاک نہیں ہے اور وہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے اور میں نے خود سرکار دو عالم ﷺ کو بلی کے استعمال کردہ (پانی) سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (سنن ابوداؤد)

تشریح
داؤد کی والدہ جب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس حریرہ لے کر پہنچیں تو وہ نماز میں مشغول تھیں اس لئے انہوں نے اپنے ہاتھ یا سر وغیرہ سے انہیں اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہ برتن رکھ دو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس طرح کے معمولی اشارے جائز ہیں کیونکہ یہ عمل کیثر نہیں ہے چناچہ نماز کو فاسد اور ختم کردینے والی چیز یا تو گفتگو ہے یا عمل کثیر ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ خود بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے۔ لہٰذا جن علماء کا مسلک یہ ہے کہ بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو کرنا مکروہ تنزیہی ہے مثلا امام ابوحنیفہ (رح) تو وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فعل آسانی و رخصت پر عمل کرنے کے مترادف ہے اور بیان جواز کے لئے ہے۔ البتہ جن علماء کے نزدیک بلی کا استعمال کردہ پاک ہے ان کو اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے تو ان ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے علماء نے لکھا ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلیوں کو پالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
Top