مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 465
وَعَنْ اُمِّ قَےْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ اَنَّھَا اَتَتْ بِاِبْنِ لَّھَا صَغِےْرٍ لَّمْ ےَاکُلِ الطَّعَامَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَجْلَسَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ حِجْرِہٖ فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِہٖ فَدَعَا بِمَاءٍ فَنَضَحَہُ وَلَمْ ےَغْسِلْہُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان
اور حضرت ام قیس بنت محصن ( حضرت ام قیس محصن کی لڑکی اور عکاشہ کی بہن ہیں ابتداء ہی میں مکہ میں اسلام کی دولت سے مشرف ہوگئی تھیں) سے مروی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کو بھی جو ابھی کھانا نہ کھاتا تھا سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں لائیں رسول اللہ ﷺ نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا اس نے آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا رسول اللہ ﷺ نے پانی منگایا اور کپڑوں پر بہا دیا اور خوب مل کر نہیں دھویا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر شیر خوار بچہ جو اناج نہ کھاتا ہو کسی کپڑے وغیرہ پر پیشاب کر دے تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس پر پانی چھڑک دینا کافی ہوجائے گا چناچہ یہ حدیث بھی بظاہر حضرت امام شافعی (رح) ہی کے مسلک کی تائید کر رہی ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ بچے کے پیشاب کو بھی ہر حال میں دھونا ضروری ہے۔ اس حدیث میں نضح جو لفظ آیا ہے اور جس کے معنی چھڑکنا ہیں اس کے معنی یہ دونوں حضرات دھونا ہی فرماتے ہیں۔ پھر حدیث کے آخری الفاظ لا یغسلہ (یعنی آپ ﷺ نے پیشاب کو دھویا نہیں) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے خوب مل مل کر نہیں دھویا بلکہ بچے کے پیشاب کے پیش نظر معمولی طور پر اس پر پانی بہا کر دھو ڈالنا ہی کافی سمجھا یہ دونوں حضرات اس حدیث کی یہ مذکورہ تاویل اس لئے کرتے ہیں کہ دوسری احادیث مثلاً استنز ھو من البول (یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو) سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ ہر ایک پیشاب کو دھونا چاہئے حضرت امام طحاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں نضح سے مراد بغیر ملے اور نچوڑے پانی کا بہانا ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بچوں کو دعا و برکت حاصل کرنے کے لئے بزرگوں اور اولیاء اللہ کے پاس لے جانا مستحب ہے، نیز بچوں کے ساتھ تواضع و نرمی اور محبت و شفقت کا معاملہ کرنا بھی مستحب ہے۔
Top