مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 490
وَعَنْہُ قَالَ تَوَضَّاَ اَلنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَمَسَحَ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ۔( احمد بن حنبل الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجۃ)
موزوں پر مسح کرنے کا بیان
اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے وضو کیا اور نعلین کے ساتھ جو ربین پر مسح کیا۔ (مسند احمد بن حنبل و جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
قاموس میں لکھا ہے کہ جو رب پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں جیسے ہمارے ہاں جراب یا موزہ کہلاتا ہے اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اس کی تفصیل چلپی میں بڑی وضاحت سے مذکور ہے یہاں اس کے بعض احکام و مسائل لکھے جاتے ہیں۔ حنفی مسلک میں جو ربین یعنی موزوں پر مسح اس وقت درست ہوگا جب کہ وہ مجلد ہوں یعنی ان کے اوپر نیچے چمڑا لگا ہوا ہو، منعل ہوں یعنی فقط نیچے ہی چمڑا ہو اور مثخنین ہوں۔ ثخنین اس موزے کو کہتے ہیں جس کو پہن کر ایک فرسخ چلا جاسکے اور وہ بغیر باندھے ہوئے پنڈلی پر رکا رہے نیز اس کے اندر کا کوئی حصہ نہ دکھلائی دے اور نہ اس کے اندر پانی چھن سکتا ہو چلپی کی عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر جو ربین منعلین بغیر ثخنین ہوں گے تو اس پر مسح جائز نہیں ہوگا لہٰذا منعلین پر مسح اسی وقت درست ہوگا جب کہ ثخنین بھی ہوں۔ چونکہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک جو رب پر مسح درست نہیں خواہ وہ منحل ہی کیوں نہ ہو اس لئے یہ حدیث حنفیہ کی جانب سے ان پر حجت ہے جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو رب پر مسح فرمایا ہے نیز حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت انس ابن مالک اور حضرت عمر بن خطاب ؓ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ ان حضرات نے اس پر مسح کیا ہے۔ آخر حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ نے نعلین کے ساتھ جو ربین پر مسح کیا تو یہاں نعلین کے مفہوم کے تعین میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ اس سے جوتے مراد ہیں آپ ﷺ نے جو ربین پر جوتوں کے ساتھ مسح کیا چونکہ عرب میں اس وقت ایسے جوتے استعمال ہوتے تھے جو بالکل چپل کی طرح ہوتے تھے اور ان پر اس طرح تسمہ لگا رہتا تھا کہ انہیں پہننے کے بعد پاؤں کے اوپر کا حصہ کھلا رہتا تھا جس کی وجہ سے موزوں پر مسح کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ آپ ﷺ نے ان جو ربین پر مسح کیا جن کے نیچے چمڑا لگا ہوا تھا
Top