مشکوٰۃ المصابیح - پینے کی چیزوں کا بیان - حدیث نمبر 4173
وعن أنس قال : حلبت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة داجن وشيب لبنها بماء من البئر التي في دار أنس فأعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم القدح فشرب وعلى يساره أبو بكر وعن يمينه أعرابي فقال عمر : أعط أبا بكر يا رسول الله فأعطى الأعرابي الذي عن يمينه ثم قال : الأيمن فالأيمن وفي رواية : الأيمنون الأيمنون ألا فيمنوا
دائیں طرف سے دینا شروع کرو
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ (جب ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ کے لئے گھر کی پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا اور اس دودھ کو اس کنویں کے پانی میں ملایا گیا جو انس ؓ کے گھر میں تھا، پھر یہ دودھ کا پیالہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا جس میں آپ ﷺ نے کچھ دودھ پیا۔ (اس وقت) آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ بیٹھے تھے اور دائیں طرف ایک دیہاتی بیٹھا تھا حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ بچا ہوا دودھ حضرت ابوبکر ؓ کو دیجئے لیکن آپ ﷺ نے اس دیہاتی کو عنایت فرمایا جو آپ ﷺ کی دائیں طرف بیٹھا تھا پھر فرمایا کہ دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ (آپ ﷺ نے اس موقع پر یہ فرمایا کہ) یاد رکھو! دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں لہٰذا دائیں طرف والوں کو دیا کرو یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ دائیں طرف والے زیادہ حق دار ہیں تو تم بھی دائیں طرف والوں کی رعایت ملحوظ رکھا کرو کہ دینے میں انہی سے ابتداء کرو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
جو انس ؓ کے گھر میں تھا ظاہری اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت انس ؓ یہاں یہ کہتے کہ جو ہمارے گھر میں تھا کیوں کہ حضرت انس ؓ نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ انہی کے گھر کا ہے، جس بکری کا دودھ دوہا گیا تھا وہ بھی حضرت انس ؓ کے گھر میں تھی اور وہ کنواں بھی ان ہی کے گھر میں تھا اور خود حضرت انس ؓ ہی اس واقعہ کو بیان کرنے والے ہیں، لیکن انہوں نے ظاہری اسلوب کے تقاضے کے برخلاف یہ کہہ کر کہ جو انس ؓ کے گھر میں تھا گویا تفنن عبارت کے اسلوب کو اختیار کیا جس کو علم عربیت میں وضع مظہر موضع مضمر کہتے ہیں۔ دونوں لفظ ایمن نون کے پیش کے ساتھ ہیں جن کا ترجمہ یہی ہے کہ دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں یعنی سب سے پہلے اس شخص کو دیا جائے جو داہنی طرف ہو اور پھر اس شخص کو دیا جائے جو پہلے شخص کے برابر میں اسی طرف ہو، اسی ترتیب سے دیتا چلا جائے، یہاں تک کہ سب سے آخر میں اس شخص کا نمبر آئے جو بائیں طرف ہے۔ ایک روایت میں یہ دونوں لفظ ایمن نون کے زبر کے ساتھ ہیں اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ میں دائیں طرف والے کو دوں گا پھر دائیں طرف والے کو، لیکن نون کے پیش روایت کی تائید مذکورہ بالا دوسری روایت الا یمنون الا یمنون سے بھی ہوتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے دینے میں اپنی داہنی طرف کی رعایت ملحوظ رکھنا مستحب ہے یعنی اگرچہ داہنی طرف کا شخص بائیں طرف کے شخص کی بہ نسبت کم رتبہ بھی ہو تو تب بھی پہلے اسی کو دیا جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس دیہاتی کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر اسی لئے مقدم رکھا کہ وہ دائیں طرف تھا، نیز یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے کمال عدل و انصاف اور آپ ﷺ کے وصف حق شناسی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کے افضل اور مقرب ترین ہونے اور حضرت عمر ؓ کی سفارش کے باوجود دیہاتی کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جہاں تک حضرت عمر ؓ کے عرض کرنے کا تعلق ہے تو انہوں نے محض یاد دہانی کے لئے عرض کیا تھا کہ شاید آنحضرت ﷺ کو وہاں حضرت ابوبکر ؓ کی موجودگی یاد نہ رہی ہو۔
Top