مشکوٰۃ المصابیح - پینے کی چیزوں کا بیان - حدیث نمبر 4174
وعن سهل بن سعد قال : أتي النبي صلى الله عليه وسلم بقدح فشرب منه وعن يمينه غلام أصغر القوم والأشياخ عن يساره فقال : يا غلام أتأذن أن أعطيه الأشياخ ؟ فقال : ما كنت لأوثر بفضل منك أحدا يا رسول الله فأعطاه إياه وحديث أبي قتادة سنذكر في باب المعجزات إن شاء الله تعالى
دائیں طرف سے دینا شروع کرو
اور حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (دودھ یا پانی) کا پیالہ لایا گیا جس سے آپ ﷺ نے پیا اس وقت آپ ﷺ کے دائیں طرف ایک نوعمر تھا جو (حاضرین مجلس میں) سب سے چھوٹا تھا، (یعنی حضرت ابن عباس ؓ اور جو بڑے بوڑھے لوگ تھے وہ بائیں طرف تھے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے لڑکے کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں اس (باقی ماندہ دودھ یا پانی) کو ان بوڑھوں کو دے دوں؟ اس نوعمر نے کہا کہ (نہیں) یا رسول اللہ! میں آپ ﷺ کے بچے ہوئے (دودھ یا پانی) کو دینے کے سلسلے میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس بچے ہوئے ( دودھ یا پانی) کو اسی نوعمر کو دے دیا۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت قتادہ ؓ کی روایت (جس کو صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا) ہم انشاء اللہ باب المعجزات میں نقل کریں گے۔

تشریح
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مجلس میں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں اور ان کو کوئی چیز دینی ہو تو دائیں طرف کا شخص اس بات کا اولی اور زیادہ حق دار ہے کہ دینے کی ابتداء اسی سے کی جائے ہاں اگر کسی مصلحت کا یہ تقاضا ہو کہ پہلے اس شخص کو دیا جائے جو بائیں طرف ہے تو دائیں طرف والے سے اس کی اجازت لینی چاہئے، اگر وہ اجازت دے دے تب بائیں طرف والے کو دیا جائے۔ رہی یہ بات کہ اس موقعے پر تو آنحضرت ﷺ نے ابن عباس ؓ سے اجازت مانگی لیکن پچھلی حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس موقع پر آپ ﷺ نے دیہاتی سے اجازت نہیں مانگی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے دائیں طرف جو بڑی عمر والے لوگ بیٹھے تھے ان کا تعلق قریش سے تھا اور ابن عباس ؓ آپ ﷺ کے قرابتدار تھے، لہٰذا آپ ﷺ نے سوچا کہ اگر ابن عباس ؓ سے اجازت لے کر ان لوگوں کو دے جائے تو ابن عباس ؓ کو کوئی ناگواری بھی نہ ہوگی اور ان بڑی عمر والے لوگوں کی تالیف قلوب بھی ہوجائے گی جب کہ اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے جن کا آنحضرت ﷺ سے پختہ تعلق تھا اور محبت و اخلاص راسخ تھا ان کی تالیف قلب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اس دیہاتی کے بارے میں بھی یہ خیال تھا کہ اگر اس سے اجازت لے کر ابوبکر ؓ کو دیا گیا تو شاید وہ اس بات کو اپنی حق تلفی سمجھتے ہوئے کسی وحشت و بیگانگی کا شکار ہوجائے، کیونکہ وہ نیا نیا حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا گویا آپ ﷺ نے اس کی تالیف قلب اسی میں دیکھی کہ اس سے اجازت نہ لی جائے۔ فقہاء اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ طاعات (یعنی امور اور عبادات) میں ایثار جائز نہیں ہے۔ یہ تو فقہاء کا قول ہے لیکن اس مسئلہ کا زیادہ واضح پہلو یہ ہے کہ اگر ایثار واجبات میں ہو تو حرام ہے اور اگر فضائل و مستحبات میں ہو تو مکروہ ہے، اس کو اور واضح طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے، مثلاً ایک شخص کے پاس صرف اتنا پانی ہے جس سے وہ خود وضو کرسکے لیکن اس نے وہ پانی کسی دوسرے شخص کو دے دیا اور خود تیمم کر کے نماز پڑھی یا اس کے پاس محض اتنا کپڑا تھا جو اس کی ستر پوشی کے بقدر تھا لیکن اس نے وہ کپڑا کسی دوسرے شخص کو دے دیا اور خود ننگے بدن نماز پڑھی، اسی طرح کا ایثار جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے، یہ تو واجبات میں ایثار کی صورت تھی، فضائل و مستحبات میں ایثار کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص باجماعت نماز پڑھنے کے لئے پہلی صف میں امام کے قریب بیٹھا تھا لیکن اس نے وہ جگہ کسی دوسرے شخص کو دے دی اور خود پچھلی صف میں آ کر نماز پڑھی اس طرح کا ایثار اچھا نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، طاعات کے برعکس دنیاوی امور میں ایثار ایک محمود و مستحسن عمل ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض صوفیاء کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے بعض مواقع پر طاعات میں ایثار کی صورتیں اختیار کیں تو غالباً انہوں نے ایسا غلبہ حال کے سبب کیا ہوگا۔
Top