مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1543
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وإن الله عز و جل إذا أحب قوما ابتلاهم فمن رضي فله الرضا ومن سخط فله السخط . رواه الترمذي وابن ماجه
بلا ومصیبت میں راضی برضا رہنا چاہئے
حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بڑی مصیبتوں کے بدلہ بڑا اجر ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پسند کرتا ہے تو اسے (مصیبتوں میں) مبتلا کردیتا ہے چناچہ جو (مصائب و بلاء میں) راضی رہا تو اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو شخص (مصیبت کے ابتلاء سے) ناراض رہا تو اس کے لئے (اللہ کی) ناراضگی ہے (ترمذی وابن ماجہ)

تشریح
اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو اسے مصیبت و بلاء میں مبتلا کردیتا ہے اسی طرح جب کسی شخص سے ناراض و ناخوش ہوتا ہے تو اسے بھی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اگرچہ اس دوسرے جزو کو حدیث میں بظاہر ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے الفاظ فمن رضی الخ سے یہ جزو بھی مفہوم ہوتا ہے۔ گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بندہ کی خوشی و ناخوشی حق تعالیٰ کی خوشی و ناخوشی کی علامت ہے جو شخص مصیبت و بلاء میں راضی برضا رہتا ہے وہ اللہ کا پسندیدہ و محبوب ہوتا ہے بایں طور کہ اللہ بھی اس سے راضی و خوش رہتا ہے اور جو شخص مصیبت و بلاء کی سختیوں پر زبان شکایت دراز کرتا اور ناراضگی و ناخوشی کا اظہار کرتا ہے وہ راندہ درگاہ الٰہی ہوتا ہے بایں طور کہ اللہ اس سے خوش و راضی نہیں رہتا۔ چناچہ منقول ہے کہ صحابہ ؓ آپس میں یہ سوال کرتے تھے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کس بندہ سے خوش و راضی ہے اور کس بندہ سے ناخوش و ناراض ہے؟ پھر یہ جواب دیتے تھے کہ اگر بندہ اللہ سے خوش و راضی ہے تو سمجھا جائے کہ اللہ اس بندہ سے خوش و راضی ہے اور اگر بندہ اللہ سے ناخوش و ناراض ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اللہ اس سے ناراض و ناخوش ہے۔
Top