مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1546
وعن عبد الله بن شخير قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : مثل ابن آدم وإلى جنبه تسع وتسعون منية إن أخطأته المنايا وقع في الهرم حتى يموت . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے عیش کدہ
حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن آدم اس حال میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں (یعنی اس کے قریب) ننانوے مہلک بلائیں ہیں اگر وہ بلائیں اسے نہیں پہنچتیں تو بڑھاپے میں مبتلا ہوتا ہے یہاں تک کہ مرجاتا ہے ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ انسان جب عدم سے وجود میں آتا ہے تو اس کے چاروں طرف بلاؤں کا ایک جال سا پھیلا ہوا ہوتا ہے وہ ایسی ایسی بلاؤں اور مصیبتوں میں گھرا ہوا ہوتا ہے جن سے خلاصی نہیں ہوتی اور اگر اتفاقا کوئی شخص ان بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات پائے رہتا ہے تو آخر میں بڑھاپے کے جال میں پھنس جاتا ہے اور بڑھاپا بھی ایسا جو درد بےدوا اور بلائے بےانتہا ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ دنیا مومن کے لئے ایک قید کانہ اور کافر کے لئے عیش کدہ ہے۔ لہٰذا مسلمان کو لازم آتا ہے کہ وہ دنیا کی ہر مصیبت و بلاء کے موقع پر صبر کے دامن کو ہاتھ سے پکڑے رہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر راضی اور صابر رہیں کہ اخروی فلاح وسعادت کی یہی ضمانت ہے۔ ایک حدیث قدسی میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جو بندہ میری اتاری ہوئی مصیبت و بلاء پر صبر نہ کرے میری دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرے اور میرے فیصلہ سے راضی نہ رہے تو وہ میرے علاوہ کوئی دوسرا رب ڈھونڈ لے سوچئے کہ ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کتنی شدید ہے۔ جو صبر و شکر کی راہ پر گامزن نہ ہو اور اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ رہے۔ دعا (اللہم احفظنا منہ و وفقنا للصبر والشکر والرضاء)۔
Top