مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 775
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلظُّھْرَ وَفِیْ مُؤَخَّرِ الصُّفُوْفِ رَجُلٌ فَاَسَاءَ الصَّلَاۃَ فَلَمَّا سَلَّمَ نَادَاہُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَا فُلَانُ اَلَا تَتَّقِی اﷲَ اَلَا تَرٰی کَیْفَ تُصَلِّیْ اِنَّکُمْ تَرَوْنَ اِنَّہ، یَخْفٰی عَلَیَّ شَیْئٌ مِمَّا تَصْنَعُوْنَ وَاﷲِ اِنِّیْ لَاَریٰ مِنْ خَلْفِیْ کَمَا اَرٰی مِنْ بِیْنَ یَدَیْ۔ (رواہ احمد بن حنبل)
رسول اللہ ﷺ کا اپنے پیچھے کی چیزوں کا معجزہ کے طور پر دیکھنا
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے (ایک مرتبہ) ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی۔ آخر صف میں ایک آدمی کھڑا تھا جس نے ٹھیک طرح نماز نہیں پڑھی۔ جب اس آدمی نے سلام پھرا (تو رسول اللہ ﷺ نے اسے آواز دے کر فرمایا کہ اے فلاں! کیا تم اللہ بزرگ و برتر سے نہیں ڈرتے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے نماز کس طرح پڑھی ہے؟ تم تو یہ جانتے ہو ہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو مجھے معلوم نہیں ہوتا حالانکہ اللہ کی قسم جس طرح میں اپنے سامنے کی چیزیں دیکھتا ہوں اسی طرح اپنے پیچھے کی چیزیں بھی دیکھ لیتا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم ﷺ کو اس دنیا میں شریعت حق دے کر مبعوث فرمایا تو جہاں آپ ﷺ کی رسالت و نبوت کے دلائل و شواہد میں بہت ساری چیزیں دیں وہیں آپ ﷺ کو کچھ معجزات بھی عنایت فرمائے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کے ذہن و فکر پر رسول اللہ ﷺ کی عظمت و برتری اور آپ ﷺ کی سچائی و صداقت عیاں ہو سکے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ ﷺ جس طرح اپنے سامنے اور آگے چیزوں کو دیکھ لیتے تھے ایسے ہی اپنے پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھنے پر قادر تھے اور یہ دیکھنا خرق عادت یعنی معجزہ کے طور پر ہوتا تھا جس کی راہنمائی الہام کے ذریعے ہوتی تھی۔ مگر اتنی بات یاد رکھ لیجئے کہ اس معجزے سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ﷺ کو علم غیب حاصل تھا کیونکہ اول تو یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپ ﷺ کو یہ خصوصیت صرف معجزے کے طور پر حاصل تھی۔ نیزیہ کہ آپ ﷺ اس وصف پر از خود قادر نہ تھے بلکہ اس سلسلے میں وحی الہام کے ذریعے آپ ﷺ کی رہنمائی کی جاتی تھی۔ پھر یہ کہ آپ ﷺ کو یہ وصف ہمیشہ حاصل نہیں رہتا تھا بلکہ کبھی کبھی ایسا ہوجاتا تھا۔ اگر آپ ﷺ کو علم غیب حاصل ہوتا تو نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ وحی الہام کی راہنمائی کے بغیر از خود اس وصف پر قاد ہوتے بلکہ یہ وصف آپ ﷺ کو ہمیشہ ہمیشہ حاصل ہوتا چناچہ اس کی تائید خود ایک روایت سے ہوتی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کہیں غائب ہوگئی، جب بہت زیادہ تلاش کے بعد بھی اس کا کہیں پتہ نہ چلا تو منافقین نے کہنا شروع کیا کہ محمد ﷺ تو یہ فرماتے ہیں کہ میں آسمان کی باتیں تم تک پہنچاتا ہوں تو کیا وہ اتنا بھی نہیں جان سکتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں تو صرف انہیں چیزوں کو جان سکتا ہوں جن کے بارے میں میرا اللہ مجھے علم دے! اور اب میرے اللہ نے مجھے (بتا دیا اور) دکھا دیا ہے کہ میری اونٹنی فلاں جگہ ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں اٹکی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ میں انسان ہوں، میں تو (ا اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر) یہ بھی نہیں جانتا کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ شیخ سعدی (رح) نے اس حقیقت کی ترجمانی اس طرح کی ہے گہے برطارم اعلی نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم بہر حال۔ رسول اللہ ﷺ کی حالت نماز آپ ﷺ کی دوسری حالتوں کے مقابلے میں زیادہ افضل و اعلیٰ ہوتی تھی اس لئے دوسرے مواقع کی بہ نسبت آپ ﷺ پر حالت نماز میں کائنات کی چیزوں کی حقیقت و معرفت کامل طور پر واضح و ظاہر ہوتی تھی۔ پھر یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا نماز میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور متوجہ الی اللہ ہونے کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ ﷺ کائنات سے بیخبر ہوجاتے تھے بلکہ نماز کی حالت میں آپ ﷺ اشیاء کائنات سے پوری پوری طرح باخبر رہتے تھے اور آپ ﷺ کا احساس و شعور پوری قوت سے اشیائے عالم کا ادراک کرتا تھا، چناچہ اللہ کے وہ نیک و فرمانبردار بندے بھی جو ریاضیت و مجاہدہ اور تعلق مع اللہ کی بناء پر کاملین کے درجے میں ہوتے ہیں حالت نماز میں کائنات کی اشیاء سے باخبر رہتے ہیں۔ اگر ایک طرف ان کے قلوب بارگاہ الٰہی میں پوری طرح حاضر رہتے ہیں تو دوسری طرف ان کے احساس و شعور دنیا کی چیزوں سے بھی مطلع رہتے ہیں اسی وجہ سے مشائخ فرماتے ہیں کہ نماز مقام کشف و حضور ہے نہ کہ محل غیبت اور استغراق!۔ بعض حضرات نے ان تمام مباحث سے ہٹ کر یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان دو سوراخ تھے جن کے ذریعے آپ ﷺ پیچھے کی جانب دیکھتے تھے۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی ثبوت ہے بلکہ کسی ذہن کی افتراع محض ہے۔
Top