مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3746
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال يوم الفتح : ( ا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية وإذا استنفرتم فانفروا
فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت، ختم ہوگئی
اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے لہٰذا جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو تم سب فورًا چلے جاؤ۔ کیونکہ نفیر عام کے موقع پر جہاد میں جانا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی ہر ایک پر ضروری ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ہجرت نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے تو مکہ سے بلکہ ہر دارالکفر سے مدینہ کو ہجرت کرنی فرض عین تھی کیونکہ مدینہ میں دین کے نام لیواؤں کی تعداد بہت کم تھی اور وہ ہر اعتبار سے بہت کمزور و ضعیف تھے لہٰذا ہجرت کو فرض قرار دیا گیا تاکہ ہر طرف سے مسلمان مدینہ پہنچ کر وہاں کے مسلمانوں کی مدد و اعانت کریں اور اس طرح مشرکوں اور اللہ کے باغیوں کی طاقت زائل و مفلوج ہو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے ذریعہ مسلمانوں کو عام غلبہ عطا فرمایا اور ان کی شوکت بڑھائی تو وہ علت یعنی مدینہ کے مسلمانوں کا کمزور اور قلیل المقدار ہونا زائل ہوگی اور اس وقت سے ہجرت کی فرضیت ختم ہوگی لیکن کچھ صورتوں میں ہجرت کا استحباب باقی ہے جیسے جہاد کے لئے اپنے وطن سے نکلنا حصول علم کی خاطر کسی دوسری جگہ چلے جانا اور دارالکفر و دارالفتنہ سے یا کسی ملک و شہر سے نکل بھاگنا جہاں بھلائیاں متروک ہوچکی ہوں اور برائیاں مروج ہوگئی ہوں۔ لیکن جہاد اور نیت باقی ہے کا مطلب یہ ہے کہ دین کے دشمنوں اور اللہ کے باغیوں کا دعویٰ سرنگوں کرنے کے لئے جہاد کی نیت رکھنے اور اخلاص عمل پیدا کرنے کا حکم باقی ہے حاصل یہ کہ ہجرت یعنی اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ چلے جانا مسلمان پر فرض تھا پھر یہ حکم ختم ہوگیا لیکن جہاد کے سبب سے یا نیت صالحہ کی بنا پر کفار کے یا اور جاہل کفار کے یا اور جاہل و بدعت اور فتنوں کے گڑھ سے نکل بھاگنے یا طلب علم کے لئے اپنا وطن چھوڑ دینا باقی رہا اور اس کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔
Top