مشکوٰۃ المصابیح - چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ - حدیث نمبر 3559
وعنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ليس على خائن ولا منتهب ولا مختلس قطع . رواه الترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي (2/318) 3598 - [ 9 ] ( لم تتم دراسته ) وروى في شرح السنة : أن صفوان بن أمية قدم المدينة فنام في المسجد وتوسد رداءه فجاء سارق وأخذ رداءه فأخذه صفوان فجاء به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فأمر أن تقطع يده فقال صفوان : إني لم أرد هذا هو عليه صدقة . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : فهلا قبل أن تأتيني به (2/318) 3599 - [ 10 ] ( لم تتم دراسته ) وروى نحوه ابن ماجه عن عبد الله بن صفوان عن أبيه (2/319) 3600 - [ 11 ] ( لم تتم دراسته ) والدارمي عن ابن عباس
خائن قطع ید کا سزا وار نہیں :
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ خیانت کرنے والے، لوٹنے والے اور اچکّے کا ہاتھ کاٹنا مشروع نہیں۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) اور صاحب مصابیح نے شرح السنۃ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ (ایک دن) حضرت صفوان ابن امیہ مدینہ تشریف لائے اور مسجد میں سر کے نیچے اپنی چادر رکھ کر سو گئے اسی (دوران) ایک چور آیا اور اس نے ان کی وہ چادر (آہستہ سے کھینچ لی (اور بھاگنا چاہا) مگر صفوان نے اس کو پکڑ لیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لائے (اور واقعہ بیان کیا، آنحضرت ﷺ نے (خود مجرم کے اقرار یا گواہوں کے ذریعہ چوری ثابت ہوجانے پر) اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، (یہ فیصلہ سن کر) حضرت صفوان (کو رحم آگیا اور انہوں نے کہا کہ اس کو آپ ﷺ کی خدمت میں لانے سے میرا یہ ارادہ نہیں تھا (کہ صرف میری چادر کی وجہ سے اس کے ہاتھ کاٹے جائیں اس لئے میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ ﷺ اس کو معاف فرما دیں) میں نے اپنی چادر اس کو صدقہ کردی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پھر اس کو میرے پاس لانے سے پہلے ہی تم نے اپنی چادر اس کو صدقہ کیوں نہ کردی تھی اور اس کو معاف کیوں نہیں کردیا تھا۔ اسی طرح کی روایت ابن ماجہ نے عبداللہ ابن صفوان سے اور انہوں نے اپنے والد (حضرت صفوان سے) اور دارمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کی۔

تشریح
خائن اس شخص کو کہتے ہیں جس کو کوئی چیز بطور عاریت کے یا امانت رکھنے کے لئے دی جائے اور وہ اس کی چیزیں کچھ یا سب ہضم کر جائے اور یہ دعوی کرے کہ وہ چیز ضائع ہوگی ہے یا سرے سے اس کا انکار کر دے یعنی یہ کہے کہ وہ چیز مجھے نہیں دی گئی ہے۔ اگرچہ ایسا شخص بہت گنہگار ہوتا ہے مگر قطع ید کا مستوجب نہیں ہوتا کیونکہ خائن جس چیز کو ہتھیاتا ہے وہ پوری طرح محرز یعنی محفوظ مال کے حکم میں نہیں ہوتی ہدایہ میں یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح لٹیرے اور اچکے کو بھی قطع ید کی سزا اس لئے نہیں دی جاتی کہ وہ غیر کا مال چھپ چھپا کر نہیں لیتے جیسا کہ پچھلی حدیث کی تشریح میں اس کی وضاحت کی گئی۔ ابن ہمام کہتے ہیں کہ چاروں ائمہ کا یہی مسلک ہے۔ سر کے نیچے چادر رکھنے کے بارے میں ھدایہ میں لکھا ہے کہ صحیح تر بات یہ ہے کہ کسی چیز کا اپنے سر کے نیچے رکھنا حرز ہے حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اس کو پہلے ہی کیوں نہ معاف کردیا تھا اور اپنا حق کیوں نہیں چھوڑ دیا تھا اب جب تم اس کو میرے پاس لے آئے اور اس کا جرم ثابت ہوجانے پر میں نے اس کا ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دے دیا تو اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہوگیا ہے اب اس معاملہ میں تمہارا کوئی حق باقی نہیں رہ گیا ہے بلکہ یہ اللہ کا حق ہوگیا ہے لہٰذا تمہارے معاف کرنے سے اس کا جرم معاف نہیں ہوگا! اس سے معلوم ہوا کہ چور جب حاکم کے سامنے پیش ہوجائے اور اس کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر اسے کوئی بھی سزا سے نہیں بچا سکتا، خود مدعی اور صاحب مال کے معاف کرنے سے بھی اس کی سزا معاف نہیں ہوگی، ہاں حاکم کے پاس قضیہ پہنچنے سے پہلے اس کو معاف کردینا جائز ہے۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو چوری کی وجہ سے اس کے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنا دی جائے اور پھر اسے چوری کی ہوئی چیز کو اس کا مالک اس شخص (چور) کو ہبہ کر کے اس کے سپرد کر دے یا اس چیز کو اس کے ہاتھ فروخت کر دے تو اس صورت میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ لیکن امام زفر امام شافعی اور امام احمد یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور حضرت امام ابویوسف کا بھی ایک قول یہی ہے اور حضرت صفوان کی مذکور حدیث بھی اسی کی تائید کرتی ہے چناچہ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک روایت میں تو یہ حدیث اسی طرح ہے جس طرح یہاں نقل کی گئی لیکن حاکم وغیرہ کی روایت میں اس طرح نہیں ہے بلکہ کچھ اضافہ و زیادتی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اس اضافہ و زیادتی کی وجہ سے اضطراب واقع ہوگیا اور اضطراب حدیث کے ضعیف ہونے کا موجب ہوجاتا ہے۔
Top