مشکوٰۃ المصابیح - چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ - حدیث نمبر 3560
وعن بسر بن أرطاة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : لا تقطع الأيدي في الغزو . رواه الترمذي والدارمي وأبو داود والنسائي إلا أنهما قالا : في السفر بدل الغزو
سفر جہاد میں چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے :
اور حضرت بسر ابن ارطاۃ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ غزوہ میں قطع ید کی سزا نافذ نہیں ہوگی۔ (اس روایت کو ترمذی، دارمی، ابوداؤد اور نسائی نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں غزوہ کی بجائے سفر کا لفظ ہے۔

تشریح
ابن مالک کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جب اسلامی لشکر دارالحرب میں کفار سے برسر جہاد ہو اور امام وقت ان میں موجود نہ ہو بلکہ امیر لشکر ان کا کار پرداز ہو اور اس وقت (جہاد میں) کوئی شخص چوری کا مرتکب ہوجائے تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے، اس طرح دوسری حدود بھی جاری نہ کی جائیں۔ چناچہ بعض فقہاء نے اس پر عمل کیا ہے اور اس کی بنیاد یہ احتمال ہے کہ مبادا وہ شخص (اس سزا کے خوف سے) دار الحرب ہی کو اپنا مستقل مسکن بنا لے اور اس طرح وہ فتنہ و گمراہی میں مبتلا ہوجائے یا یہ خوف بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے مجاہدین میں بددلی اور تفرقہ نہ پیدا ہوجائے۔ طیبی نے وضاحت کی ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ مسلک ہے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ غزوہ میں قطع ید کی سزا نافذ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسلامی لشکر کا کوئی فرد مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ چرائے تو اس کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں کیونکہ اس مال غنیمت میں اس کا بھی حق ہے۔ طیبی کہتے ہیں ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں سفر کا جو لفظ مطلق نقل کیا گیا ہے اس کو مقید پر محمول کیا جائے یعنی سفر سے سفر جہاد مراد لیا جائے۔
Top