مشکوٰۃ المصابیح - حدود کا بیان - حدیث نمبر 3528
وعن بريدة قال : جاء ماعز بن مالك إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله طهرني فقال : ويحك ارجع فاستغفر الله وتب إليه . فقال : فرجع غير بعيد ثم جاء فقال : يا رسول الله طهرني . فقال النبي صلى الله عليه و سلم مثل ذلك حتى إذا كانت الرابعة قاله له رسول الله صلى الله عليه و سلم : فيم أطهرك ؟ قال : من الزنا قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أبه جنون ؟ فأخبر أنه ليس بمجنون فقال : أشرب خمرا ؟ فقام رجل فاستنكهه فلم يجد منه ريح خمر فقال : أزنيت ؟ قال : نعم فأمر به فرجم فلبثوا يومين أو ثلاثة ثم جاء رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : استغفروا لماعز بن مالك لقد تاب توبة لو قسمت بين أمة لوسعتهم ثم جاءته امرأة من غامد من الأزد فقالت : يا رسول الله طهرني فقال : ويحك ارجعي فاستغفري الله وتوبي إليه فقالت : تريد أن ترددني كما رددت ماعز بن مالك : إنها حبلى من الزنا فقال : أنت ؟ قالت : نعم قال لها : حتى تضعي ما في بطنك قال : فكفلها رجل من الأنصار حتى وضعت فأتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : قد وضعت الغامدية فقال : إذا لا نرجمها وندع ولدها صغيرا ليس له من يرضعه فقام رجل من الأنصار فقال : إلي رضاعه يا نبي الله قال : فرجمها . وفي رواية : أنه قال لها : اذهبي حتى تلدي فلما ولدت قال : اذهبي فأرضعيه حتى تفطميه فلما فطمته أتته بالصبي في يده كسرة خبز فقالت : هذا يا نبي الله قد فطمته وقد أكل الطعام فدفع الصبي إلى رجل من المسلمين ثم أمر بها فحفر لها إلى صدرها وأمر الناس فرجموها فيقبل خالد بن الوليد بحجر فرمى رأسها فتنضح الدم على وجه خالد فسبها فقال النبي صلى الله عليه و سلم : مهلا يا خالد فو الذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له ثم أمر بها فصلى عليها ودفنت . رواه مسلم
اقامت حد گناہ کو ساقط کردیتی ہے
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ماعز ابن مالک آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے یعنی (مجھ سے جو گناہ سر زد ہوگیا ہے اس کی حد جاری کر کے میرے گناہ کی معافی کا سبب بن جائے) آپ ﷺ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے واپس جا یعنی زبان کے ذریعہ استغفار کر اور دل سے توبہ کر راوی کہتے ہیں وہ چلا گیا اور تھوڑی دور جا کر پھر واپس آگیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے نبی کریم ﷺ نے وہی الفاظ فرمائے جو پہلے فرمائے تھے، چار مرتبہ اسی طرح ہوا اور (جب چوتھی بار ماعز نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے) تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے کس چیز سے اور کس وجہ سے پاک کروں؟ اس نے کہا کہ (حد جاری کر کے) زنا کے گناہ سے آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ کیا اس نے شراب پی رکھی ہے؟ (یہ سن کر ایک شخص نے کھڑے ہو کر اس کا منہ سونگھا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس نے شراب پی رکھی ہے یا نہیں) لیکن شراب کی بو نہیں پائی گئی، آنحضرت ﷺ نے پھر ماعز سے پوچھا کہ کیا (واقعی) تو نے زنا کیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا چناچہ اس کو سنگسار کردیا گیا دو یا تین روز اسی طرح گذر گئے یعنی مجلس نبوی میں ماعز کی سنگساری کے بارے میں دو تین دن تک کوئی ذکر نہیں ہوا پھر (ایک دن) رسول کریم ﷺ تشریف لائے تو فرمایا کہ تم لوگ ماعز کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرو بلا شبہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کے ثواب کو پوری امت پر تقسیم کیا جائے تو وہ سب کے لئے کافر ہوجائے، پھر اس کے بعد (ایک دن) ایک عورت جو قبیلہ ازد کے خاندان غامد میں سے تھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے، واپس جا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار توبہ کر۔ اس عورت نے عرض کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جس طرح آپ ﷺ نے ماعز ابن مالک کو پہلی دفعہ واپس کردیا تھا اسی طرح مجھ کو بھی واپس کردیں؟ اور درا نحالی کہ (میں) وہ عورت (ہوں جو) زنا کے ذریعہ حاملہ ہے لہٰذا اس اقرار کے بعد میرے انکار کی گنجائش تھی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تو! (یعنی آنحضرت ﷺ نے ایک طرح سے اپنے تغافل کو ظاہر کرنے اور اس کو اقرار زنا سے رجوع کرنے کا ایک اور موقع دینے کے لئے فرمایا کہ یہ تو کیا کہہ رہی ہے؟ کیا زنا کے ذریعہ حاملہ ہے! ) اس عورت نے اس کے باوجود اپنے اقرار پر اصرار کیا اور کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا اچھا تو اس وقت تک انتظار کر جب تک تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہوجائے۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ایک انصاری نے اس عورت کی خبر گیری اور کفالت کا اس وقت تک کے لئے ذمہ لے لیا جب تک کہ وہ ولادت سے فارغ نہ ہوجائے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ غامدیہ عورت ولادت سے فارغ ہوگئی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم ابھی اس کو سنگسار نہیں کریں گے اور اس کمسن بچے کو اس حالت میں نہیں چھوڑیں گے کہ کوئی اس کو دودھ پلانے والا نہ ہو۔ یعنی اگر ہم نے اس کو ابھی سنگسار کردیا تو اس کا بچہ جو شیر خوار اور بہت چھوٹا ہے ہلاک ہوجائے گا، کیونکہ اس کی ماں کے بعد اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے اس لئے ابھی اس کو سنگسار کرنا مناسب نہیں ہے) ایک اور انصاری (یہ سن کر) کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس بچہ کے دودھ پلانے اور اس کی خبر گیری کا میں ذمہ دار ہوں راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا اور وہ سنگسار کی گئی )۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت سے فرمایا کہ جا جب تک کہ تو ولادت سے فارغ نہ ہوجائے (انتظار کر) پھر جب وہ ولادت سے فارغ ہوگئی تو آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا جا اس بچہ کو دودھ پلا تاآنکہ تو اس کا دودھ چھڑائے اور پھر جب اس نے بچہ کا دودھ بھی چھڑا دیا تو اس بچہ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی اس وقت اس کے بچہ کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا، اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے اس بچہ کا دودھ چھڑا دیا ہے یہ اب روٹی کھانے لگا ہے! آنحضرت ﷺ نے اس بچہ کو ایک مسلمان کے حوالے کیا اور اس عورت کے لئے حکم فرمایا کہ ایک گڑھا کھودا جائے جو اس کے سینہ تک کھودا جائے جب اس کے سینہ تک گڑھا کھود دیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کیا گیا اس کی سنگساری کے دوران جب حضرت خالد ابن ولید نے ایک پتھر اس کے سر پر مارا اور اس کے سر کا خون حضرت خالد کے منہ پر آکر پڑا تو حضرت خالد اس کو برا بھلا کہنے لگے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خالد! اس کی بخشش ہوچکی ہے اس کو برا بھلا مت کہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر توبہ (ناروا) ٹیکس لینے والا کرے تو اس کی مغفرت و بخشش ہوجائے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا چناچہ پڑھی گئی اور وہ دفن کی گئی۔ (مسلم )

تشریح
بلاشبہ ماعز نے توبہ کی اس ارشاد کے ذریعہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے ماعز کی سعادت اور اس کی توبہ کی فضیلت کو ظاہر فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اس مغفرت اور رحمت کو لازم کرتی ہے جس کا دامن، مخلوق اللہ کی ایک بہت بڑی جماعت پر سایہ فگن ہوسکتا ہے یہاں اقامت حد (حد کی قائم ہونے) کو توبہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ جس طرح توبہ کے ذریعہ گناہ دھل جاتے ہیں اسی طرح حد جاری ہونے سے بھی گناہ ختم ہوجاتا ہے۔ جب تک کہ تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہوجائے ابن مالک کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جب تک کہ ولادت سے فارغ نہ ہوجائے اس پر حد قائم نہ کی جائے تاکہ ایک بےگناہ کو جو اس کے پیٹ میں ہے ہلاک کرنا لازم نہ آئے۔ میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ زانیہ کو سنگسار کرنے میں اس وقت تک کی مہلت دی جائے جب تک کہ اس کا وہ بچہ جو اس کے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اس سے مستغنی نہ ہوجائے بشرطیکہ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی نہ ہو، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔ اگر ایسی توبہ (ناورا) ٹیکس لینے والا کرے اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ غیر شرعی طور پر اور نامناسب طریقوں سے لوگوں سے محصول ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ بڑے گناہگار ہیں کیونکہ اس طرح کے محصول وٹیکس وصول کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا مال زور زبر دستی سے اور ظلم کر کے چھین لیا جائے۔ حدیث کے آخری جملہ میں لفظ صلی مسلم کے تمام راویوں سے صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ منقول ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جب کہ طبری کے نزدیک اور ابن ابی شیبہ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ لفظ صاد کے پیش اور لام کے زیر یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ منقول ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ دوسرے لوگوں نے پڑھی آنحضرت ﷺ نے نہیں پڑھی چناچہ ابوداؤد کی روایت میں تو صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ (لم یصل علیہا) یعنی آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا، اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں سنگسار کئے جانے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ چناچہ امام مالک کے ہاں اس کی نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ امام وقت اور اہل فضل نہ پڑھیں دوسرے لوگ پڑھ سکتے ہیں لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بلکہ ہر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے جو کلمہ گو اور ا اہل قبلہ ہو اگرچہ وہ فاسق وفاجر ہو یا اس پر حد قائم کی گئی ہو نیز ایک روایت میں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم کے تمام راویوں نے لفظ صلی کو صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا ہے جب کہ طبری کے نزدیک یہ لفظ صاد کے پیش یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ ہے نیز ابی شیبہ ابوداؤد اور امام نووی نے بھی اس طرح نقل کیا ہے لہٰذا اس بارے میں یہ بات کہنی زیادہ مناسب ہے کہ یہ لفظ اصل میں تو صیغہ معروف ہی کے ساتھ ہے البتہ ماقبل کے الفاظ (ثم امربہا) اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو اس عورت کے جنازہ کو نہلانے کفنانے اور نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ لانے کا حکم دیا، چناچہ اس کی تائید اس عبارت سے ہوتی ہے جو مسلم کی روایت میں ہے کہ حدیث (امربہا النبی ﷺ فرجمت ثم صلی علیہا فقال لہ عمر تصلی علیہا یا نبی اللہ وقد زنت) یہ روایت صراحت کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی تھی۔ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حدیث (ثم امرہم یصلوا علیہا) (یعنی پھر آپ ﷺ نے یہ حکم دیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے قاضی عیاض نے بھی وضاحت کی ہے کہ اگرچہ مسلم نے اپنی روایت میں آنحضرت ﷺ کا معاذ ابن مالک کے جنازے کی نماز پڑھنا ذکر نہیں کیا ہے لیکن بخاری نے اس کو ذکر کیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ جب مسلم کے اکثر راویوں نے لفظ صلی صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا تو یہاں صاحب مشکوٰۃ نے اس لفظ کو صیغہ مجہول کے ساتھ کیوں نقل کیا؟ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرچہ اثبات، نفی پر مقدم ہوتا ہے اس اعتبار سے صاحب مشکوٰۃ کو یہ لفظ صیغہ معروف کے ساتھ کر کے اثبات کو ترجیح دینا چاہئے تھا لیکن جب انہوں نے معتمد صحیح نسخوں میں دیکھا کہ اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کے جنازے کی نماز پڑھی یا نہیں پڑھی تو انہوں نے لفظ صلی کو صیغہ مجہول کے ساتھ نقل کرنے کو ترجیح دی تاکہ اس صورت میں دونوں ہی احتمال ملحوظ رہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صورت ابہام سے خالی نہیں ہے اس لئے اس بارے میں اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ جمہور کی متابعت اور نقل مشہور کی موافقت کے پیش نظر اس لفظ کو صیغہ معروف ہی کے ساتھ قبول کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی۔ بہرکیف یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حد، اس گناہ کو ختم کردیتی ہے جس کی سزا میں اس کا نفاذ اجراء ہوتا ہے مثلا اگر زید زنا کا مرتکب ہوا اور اس کے اس جرم کی سزا میں اس پر حد جاری کی جائے تو وہ زنا کے گناہ سے بری ہوجائے گا اور آخرت میں اس سے اس زنا پر کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا۔ ایک بات اور نووی کہتے ہیں کہ (یہاں اس عورت کے بارے میں دو روایتیں نقل کی گئی ہیں اور) بظاہر دوسری روایت پہلی روایت کے مخالف ہے کیونکہ دوسری روایت سے تو صراحۃ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کو اس وقت سنگسار کیا گیا جب اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا اور وہ روٹی کھانے لگا تھا لیکن پہلی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بچے کی ولادت کے بعد ہی سنگسار کردیا گیا تھا، لہٰذا دوسری دوسری روایت کے صریح مفہوم کے پیش نظر پہلی روایت کی تاویل کرنی ضروری ہوئی تاکہ دونوں روایتوں کا مفہوم یکساں ہوجائے کیونکہ دونوں روایتوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے اور دونوں ہی روایتیں صحیح ہیں، پس تاویل یہ ہے کہ پہلی روایت میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اس بچے کو دودھ پلانے کا ذمہ دار ہوں تو انہوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب کہ اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا اور دودھ پلانے کا ذمہ دار ہونے سے اس کی مراد یہ تھی کہ میں اس بچہ کی کفالت اور پرورش کی ذمہ داری لیتا ہوں اور اپنے اس مفہوم کو انہوں نے مجازاً دودھ پلانے سے تعبیر کیا۔
Top