مشکوٰۃ المصابیح - حدود کا بیان - حدیث نمبر 3531
عن أبي هريرة قال : جاء ماعز الأسلمي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إنه قد زنى فأعرض عنه ثم جاء من شقه الآخر فقال : إنه قد زنى فأعرض عنه ثم جاء من شقه الآخر فقال : يا رسول الله إنه قد زنى فأمر به في الرابعة فأخرج إلى الحرة فرجم بالحجارة فلما وجد مس الحجارة فر يشتد حتى مر برجل معه لحي جمل فضربه به وضربه الناس حتى مات . فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه و سلم أنه فرحين وجد مس الحجارة ومس الموت فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : هلا تركتموه . رواه الترمذي وابن ماجه وفي رواية : هلا تركتموه لعله أن يتوب الله عليه
اگر زنا کا اقراری مجرم اپنے اقرار سے رجوع کرلے تو حد ساقط ہوجائے گی یا نہیں ؟
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اس نے (یعنی میں نے) زنا کیا ہے، یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے اپنا منہ اس طرف سے پھیرلیا وہ دوسری جانب سے گھوم کر یعنی تبدیل مجلس کر کے پھر آپ ﷺ کے سامنے آیا اور کہا کہ اس نے زنا کیا ہے آنحضرت ﷺ نے پھر اس کی طرف منہ پھیرلیا اور وہ بھی پھر دوسری جانب سے گھوم کر آپ ﷺ کے سامنے آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! اس نے زنا کیا ہے! آخر کار چوتھی مرتبہ میں آنحضرت ﷺ نے اس کے سنگساری کا حکم صادر فرمایا چناچہ اس کو حرہ میں لایا گیا جو مدینہ کا کالے پتھروں والا مضافاتی علاقہ ہے اور اس کو پتھر مارے جانے لگے جب اسے پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گذرا جس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی اس شخص نے اسی جبڑے کی ہڈی سے اس کو مارا اور دوسرے لوگوں نے بھی دوسری چیزوں سے اس کا مارا تاآنکہ وہ مرگیا۔ جب صحابہ نے رسول کریم ﷺ سے یہ ذکر کیا کہ وہ پتھروں کو چوٹ کھا کر اور موت کی سختی دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کر کے سنگسار کردیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا؟۔ (ترمذی، ابن ماجہ ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ ذکر سن کر فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا، بہت ممکن تھا کہ وہ توبہ کرلیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا۔

تشریح
حدیث (یتوب فیتوب اللہ علیہ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ تو اپنے اس برے فعل سے رجوع کرتا (یعنی ندامت وشرمساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی چاہتا اور اللہ تعالیٰ قبولیت توبہ کے ساتھ اس پر رجوع کرتا یعنی بنظر رحمت اس کی طرح متوجہ ہوتا اور اس کے گناہ کو معاف کردیتا۔ ) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے اپنے ارتکاب زنا کا خود اقرار کرے اور پھر بعد میں یہ کہے کہ میں نے زنا کا ارتکاب نہیں کیا ہے یا میں جھوٹ بولا ہے یا میں اب اپنے اقرار سے رجوع کرتا ہوں تو اس صورت میں اس سے حد ساقط ہوجائے گی اسی طرح اگر وہ حد قائم ہونے کے درمیان اپنے اقرار سے رجوع کرے تو حد کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے وہ ساقط ہوجائے گا جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے حد ساقط نہیں ہوگئی۔
Top