مشکوٰۃ المصابیح - حیض کا بیان - حدیث نمبر 512
عَنْ اَنَسٍ قَالَ اِنَّ الْےَھُوْدَ کَانُوْا اِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَۃُ فِےْھِمْ لَمْ ےُؤَاکِلُوْھَا وَلَمْ ےُجَامِعُوْھُنَّ فِی الْبُےُوْتِ فَسَأَلَ اَصْحَابُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم النَّبِیَّ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَےَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِےْضِ اَلْاٰےَۃَ(البقرہ٢: ٢٢٢) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِصْنَعُوْا کُلَّ شَےْئٍ اِلَّا النِّکَاحَ فَبَلَغَ ذَالِکَ الْےَھُوْدَ فَقَالُوْا مَا ےُرِےْدُ ھٰذَا الرَّجُلُ اَنْ ےَّدَعَ مِنْ اَمْرِنَا شَےْئًا اِلَّا خَالَفَنَا فِےْہِ فَجَآءَ اُسَےْدُ بْنُ حُضَےْرٍوَّعَبَّادُ ابْنُ بِشْرٍ فَقَالَا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ الْےَھُوْدَ یَقُوْلُ کَذَا وَکَذَااَفَلَا نُجَامِعُھُنَّ فَتَغَےَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتّٰی ظَنَنَّا اَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَےْھِمَا فَخَرَجَا فَاسْتَقْبَلَتْھُمَا ھَدِےَّۃٌ مِّنْ لَّبَنٍ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَرْسَلَ فِیْ اٰثَارِھِمَا فَسَقَاھُمَا فَعَرَفَا اَنَّہ، لَمْ ےَجِدْ عَلَےْھِمَا۔ (صحیح مسلم)
حیض کا بیان
حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ یہود میں سے جو کوئی عورت ایام سے ہوجاتی تو وہ لوگ نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے نہ تھے بلکہ گھروں میں سونا بیٹھنا تک چھوڑ دیتے تھے چناچہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں حکم پوچھا (کہ حائضہ عورتوں کے بارے میں یہودیوں کا تو یہ عمل ہے لیکن ہم کیا کریں؟ ) جبھی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ( وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْض) 2۔ البقرۃ 222) (یعنی یہ لوگ آپ ﷺ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں الخ نازل فرمائی (آیت کے نازل ہونے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ) تم اپنی عورتوں کے ساتھ جب کہ وہ حائضہ ہوں) سوائے صحبت کے جو چاہے کیا کرو جب یہ خبر یہودیوں کو پہنچی تو انہوں نے کہا یہ آدمی یعنی محمد ﷺ ہمارے جس دینی امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس میں ہماری مخالفت ضرور کرتے ہیں۔ (یہود کی زبانی یہ سن کردو صحابہ کرام) حضرت اسید ابن حضیر اور حضرت عباد ابن بشر ؓ (دربار رسالت میں) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہودی ایسا ایسا کہہ رہے ہیں (یعنی انہوں نے یہودیوں کا کلام نقل کیا اور پھر یہ کہا کہ) اگر اجازت ہو (یہودیوں کی موافقت کے لئے) ہم اپنی عورتوں کے پاس (ایام حیض) میں رہنا سہنا چھوڑ دیں۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور ہمیں یہ گمان ہوگیا کہ آپ ﷺ ان دونوں پر خفا ہوگئے ہیں۔ چناچہ وہ دونوں بھی نکل کر چل دئیے۔ ان کے جاتے ہی رسول اللہ ﷺ کے پاس کہیں سے تحفہ میں دودھ آگیا، آپ ﷺ نے ان دونوں کے پیچھے (کسی آدمی کو بلانے کے لئے) بھیجا (جب وہ آگئے تو) آپ ﷺ نے انہیں وہ دودھ پلا دیا (تاکہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے لطف و کرم کا احساس ہوجائے چناچہ دودھ پینے کے بعد انہوں نے جانا کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ناراض نہیں ہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
پوری آیت یہ ہے ( وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ ھُوَ اَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَا ءَ فِي الْمَحِيْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَ طْهُرْنَ ) 2۔ البقرۃ 222) اور (اے محمد ﷺ صحابہ کرام حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں سو آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم) ان سے کہہ دیجئے کہ وہ تو نجاست ہے لہٰذا ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تم وہ پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور ان سے مقاربت نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں جماع نہ کرو، اس کے علاہ تمام چیزیں جائز ہیں۔ یعنی ان کے ساتھ کھانا، پینا، گھروں میں رہنا سہنا، لیٹنا، بیٹھنا یہاں تک کہ عورت کے ناف کے اوپر کے حصے سے اپنا بدن ملانا یا ہاتھ لگانا یہ سب چیزیں جائز ہیں۔ لہٰذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایام حیض میں اگر کوئی آدمی جماع کرے گا تو وہ آدمی گنہ گار ہوگا کیونکہ یہ حرام ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی اپنی عورت سے ایام حیض میں یہ سمجھ کر جماع کرے کے یہ حلال اور جائز ہے تو وہ کافر ہوجائے گا کیونکہ اس کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہوتا ہے، (دونوں صحابہ کرام نے یہود کی باتیں سن کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو معروضہ پیش کیا تھا اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کرلیجئے کہ اللہ نخواستہ ان کے ذہن میں اس حکم کی کوئی اہمیت نہ تھی یا یہ کہ ایک اسلامی حکم کے مقابلے میں یہودیوں کی بات کا انہیں زیادہ خیال تھا بلکہ ان کا مطلب تو صرف یہ تھا کہ آپ ﷺ اجازت دیں تو ہم عورتوں کے ساتھ ایام حیض میں اٹھنا بیٹھنا ترک کردیں اور ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیں، تاکہ یہود جو طعن کرتے ہیں وہ نہ کریں اور ہم آپس میں الفت و یک جہتی کے ساتھ رہا کریں۔
Top