مشکوٰۃ المصابیح - خواب کا بیان - حدیث نمبر 4516
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بينا أنا نائم بخزائن الأرض فوضع في كفي سواران من ذهب فكبرا علي فأوحي إلي أن أنفخهما فنفختهما فذهبا فأولتهما الكذابين اللذين أنا بينهما صاحب صنعاء وصاحب اليمامة . متفق عليه . وفي رواية يقال لأحدهما مسيلمة صاحب اليمامة والعنسي صاحب صنعاء لم أجد هذه الرواية في ( الصحيحين ) وذكرها صاحب الجامع عن الترمذي .
ایک خواب کی تعبیر
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( ایک دن) میں سو رہا تھا کہ ( خواب) میں زمین کے خزانے میرے سامنے لائے گئے پھر میرے ہاتھ پر سونے کے دو کڑے رکھے گئے جو مجھ پر گراں گزرے ( یعنی مردوں کے لئے سونا حرام ہونے کی وجہ سے ان کڑوں کا میرے ہاتھوں میں ہونا مجھ کو ناگوار ہوا) اس کے بعد مجھ پر وحی آئی ( یعنی خواب ہی میں بطور الہام میرے دل میں اللہ نے یہ بات ڈالی) کہ ان کڑوں پر پھونک مارو چناچہ میں نے پھونک ماری تو وہ کڑے اڑے گئے میں نے ان دونوں کڑوں سے ان دونوں جھوٹوں کے بارے میں تعبیر لی ( باعتبار مسکن علاقہ کے) جن کے درمیان میں ہوں، یعنی ایک تو یمامہ والا ٫ اور دوسرا صنعاء والا۔ ( بخاری ومسلم) اور ایک روایت میں جس کو ( ترمذی نے نقل کیا ہے) یوں ہے کہ ( آپ ﷺ نے ان دونوں جھوٹوں کی وضاحت اس طرح فرمائی) کہ ان میں سے ایک کو تو مسیلمہ کہا جاتا ہے جو یمامہ کا رہنے والا ہے اور دوسرا عنسی ہے جو صنعاء کا رہنے والا ہے مصنف مشکوۃ کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت بخاری و مسلم میں نہیں ملی ہے اور اس کو صاحب جامع الاصول نے ترمذی سے نقل کیا ہے۔

تشریح
زمین کے خزانے یعنی زمین کے خزانے کی کنجیاں میرے سامنے لائی گئیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے سامنے حقیقت میں خزانے ہی لائے گئے تھے خزانوں کے ذریعہ گویا یہ بشارت دی گئی کہ آپ ﷺ کی امت کے لوگ اس روئے زمین پر اپنا تسلط قائم کریں گے اور دنیا کے خزانوں کے مالک قرار پائیں گے۔ نیز آپ ﷺ کی امت اور آپ ﷺ کی شریعت چار دانگ عالم میں پھیل جائے گی۔ صنعاء یمن کے ایک مشہور کا نام ہے اس کے سردار کا نام اسود عنسی تھا جس نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات میں نبوت کا دعوی کیا تھا جب آپ ﷺ مرض وفات میں صاحب فراش تھے تو حضرت فیروز دیلمی نے اسود عنسی کو قتل کیا، آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا فاز فیروز یعنی فیروز فائز المرام ہوئے، اسود عنسی کی طرح یمامہ کے رہنے والے مسیلمہ کذاب نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا اس کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت وحشی نے قتل کیا تھا یہ وہی وحشی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل غزوہ احد میں امیر حمزہ ؓ کو شہید کیا تھا۔ کڑوں سے دونوں جھوٹوں کے بارے میں تعبیر لینے کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ کڑے اصل میں ہتھکڑی کی مشابہت رکھتے ہیں جس کو ہاتھوں میں ڈال کر قیدی بنایا جاتا ہے۔ اور ہتھکڑی ہاتھوں کو اس طرح باندھ دیتی ہے کہ وہ ہاتھ نہ کسی چیز کو پکڑ سکتے ہیں نہ کوئی کام کرسکتے ہیں اور نہ حرکت و تصرف کی قدرت رکھتے ہیں، چناچہ وہ دونوں کذاب کہ جو نبوت کا دعوی کر کے آنحضرت ﷺ کے مقابلہ پر آئے تھے قیدیوں کے مشابہ ہوئے جن کے ہاتھ کی کڑی کڑوں کی صورت میں آپ ﷺ کے دست مبارک میں تھی کہ آپ ﷺ نے ان دنوں ہاتھوں کو ہتھکڑی میں ڈال کر پکڑ رکھا ہے اور چھوڑتے نہیں تاکہ وہ اپنی حرکت و عمل سے باز رہیں اور کوئی کام نہ کرسکیں۔ رہی یہ بات کہ اس تعبیر کے پیش نظر سونے ہی کے کڑے کیوں دکھائے گئے لوہے کے کڑے کیوں نہ دکھائے گئے جو ان کے زیادہ مناسب حال تھے تو اس میں بھی دراصل ایک نکتہ ہے اور وہ یہ کہ سونے کے کڑے دکھا کر اشارہ کیا گیا کہ دونوں جھوٹے دنیاوی عزت وجاہ کے لالچ اور زیب وزینت کے انہماک میں کس قدر مبتلا ہیں اور یہ کہ ان کا مردود و مجرم ہونا کس قدر واضح اور ان کی نوعیت کتنی سنگین ہے
Top