مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5054
وعن عمرو بن عوف قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فوالله لا الفقر أخشى عليكم ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم . متفق عليه
دنیا کی طرف راغب ہونا تباہی وبربادی کی طرف راغب ہونا ہے
حضرت عمروبن عوف ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم مجھے تمہارے فقروافلاس کا کوئی ڈر نہیں ہے (کیونکہ فقروافلاس کی حالت میں دین کی سلامتی کا امکان غالب ہوتا ہے اور یہ چیز تمہارے حق میں زیادہ سود مند ہے) بلکہ میں اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کی جائے گی (اور تم مالداروں کا طور طریقہ اختیار کر کے مختلف قسم کی آفتوں اور بلاؤں کے ذریعہ ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہوجاؤگے) جیسا کہ ان لوگوں پر دنیا کشادہ کی گئی تھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (اور وہ مال و دولت کی بےحد رغبت و محبت رکھنے کی وجہ سے فقراء اور مساکین پر رحم نہیں کھاتے تھے اور ان کی مدد واعانت سے گریز کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو تباہ و برباد کردیا گیا) چناچہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے (یعنی دنیا کو اختیار کرو گے اور اس کی طرف نہایت رغبت رکھوگے کہ ایک دوسرے سے مال و دولت اور جاہ و حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑائی جھگڑا شروع کردو گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے اس کی طرف رغبت کی تھی اور پھر یہ دنیا تم کو اسی طرح تباہ و برباد کردے گی جس طرح ان کو تباہ و برباد کرچکی ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مال و دولت کی وہ فراخی وآسودگی جو دنیا کا گرویدہ بناتی ہے، حرص وطمع میں مبتلا کرتی ہے، جوڑنے سمیٹنے اور ذخیرہ اندوزی کا خوگر کرتی ہے چونکہ انسان کو اخلاقی و روحانی طور پر تباہ و برباد کردیتی ہے اور اخروی ہلاکت کا مستوجب بنادیتی ہے اس لئے حضور ﷺ نے مسلمانوں کی دنیاوی خوشحال وآسودگی اور مالداری سے اپنے خوف کا اظہار فرمایا! یا آپ ﷺ نے اس دنیاوی نفع وآسودگی اور خوشحالی کے تئیں خوف کا اظہار فرمایا جو باہمی مخالفت ونزاع، سماجی استحاصل ولوٹ گھسوٹ اور محض دنیاوی اقتدار کے لئے جنگ وجدل اور قتل و قتال کے نتیجہ میں حاصل ہو۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں فقر سے مراد ان تمام چیزوں سے تہی دست ہونا ہے جن کی ایک انسانی زندگی کو احتیاج ہوتی ہے اور جن پر ضروریات دین کی تکمیل اور بنیادی اسباب معیشت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی طرح غنا یعنی دنیاوی فراخی وآسودگی سے مراد دنیا کی چیزوں کا اس قدر حاصل ہونا ہے جو مقدار کفایت و ضرورت سے زائد ہوں جس کی وجہ سے انسان حق تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے غافل ہوجاتا ہے اور تمردو سرکشی اختیار کرلیتا ہے۔
Top