مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5075
وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج يوما ونحن معه فرأى قبة مشرفة فقال ما هذه ؟ قال أصحابه هذه لفلان رجل من الأنصار فسكت وحملها في نفسه حتى إذا جاء صاحبها فسلم عليه في الناس فأعرض عنه صنع ذلك مرارا حتى عرف الرجل الغضب فيه والإعراض فشكا ذلك إلى أصحابه وقال والله إني لأنكر رسول الله صلى الله عليه وسلم . قالوا خرج فرأى قبتك . فرجع الرجل إلى قبته فهدمها حتى سواها بالأرض . فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم فلم يرها قال ما فعلت القبة ؟ قالوا شكا إلينا صاحبها إعراضك فأخبرناه فهدمها . فقال أما إن كل بناء وبال على صاحبه إلا ما لا إلا ما لا يعني ما لا بد منه . رواه أبو داود
بلاضرورت عمارت بنانے پر وعید
حضرت انس ؓ کہتے ہی کہ ایک روز رسول کریم ﷺ (کہیں جانے کے لئے) باہر نکلے۔ ہم صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھی، آپ ﷺ نے راستہ میں ایک بلند قبہ کو دیکھا تو تحقیر ونفرت کے لہجہ میں فرمایا کہ یہ قبہ کیا ہے؟ (یعنی یہ ناپسندیدہ عمارت کس نے بنائی ہے؟ ) صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یہ قبہ فلاں شخص نے بنایا ہے جو ایک انصاری ہے۔ آپ ﷺ (یہ سن کر) خاموش رہے اور (کچھ فرمایا تو نہیں لیکن) اس بات کو (ناگواری اور غصہ کے طور پر) اپنے دل میں رکھا یہاں تک کہ جب اس قبہ کا مالک آپ ﷺ کی خدمت میں آیا ور اس نے لوگوں کی موجوگی میں آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا (یعنی یا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب ہی نہیں دیا یا جواب تو دیا لیکن اس سے منہ پھیرلیا تاکہ اسے تنبیہ ہوجائے اور دوسرے لوگوں کو بھی تنبیہ ہوجائے) آنحضرت ﷺ نے ایسا کئی مرتبہ کیا (کہ وہ شخص آپ ﷺ کو سلام کرتا اور آپ ﷺ اس کا جواب نہ دیتے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے) آخرکار اس شخص نے (ان) صحابہ ؓ سے (کہ جو حضور ﷺ کے خاص مصاحب اور ہم نشین تھے اس امر کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ بخدا، میں ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے رسول کریم ﷺ مجھ سے ناآشنا ہوں (یعنی میں رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر جس غضب وغصہ کے آثار دیکھ رہا ہوں وہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے اور مجھے اس کا سبب بھی معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کیوں اتنا سخت ناراض ہیں؟ ) ان صحابہ ؓ نے اس کو بتایا کہ (ایک دن) حضور ﷺ ادھر (تمہاری طرف) تشریف لے گئے تھے اور (جب وہاں) تمہارے قبہ کو دیکھا (تو ناراض ہوگئے تھے) اس شخص (نے یہ سنا تو فوراً ) اپنے قبہ کی طرف گیا اور اس کو ڈھا دیا یہاں تک کہ زمین کے برابر کردیا۔ (اس واقعہ کے بعد) ایک دن رسول کریم ﷺ پھر ادھر تشریف لے گئے اور قبہ کو وہاں نہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ وہ قبہ کیا ہوا؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ قبہ بنانے والے نے اپنے تئیں آپ ﷺ کی بےالتفاتی اور ناراضگی کا ہم سے شکوہ کیا تھا اور اس کا سبب دریافت کیا تو ہم نے اس کو صورت حال سے آگاہ کردیا تھا (کہ حضور ﷺ تم سے اس لئے ناراض ہیں کہ تم نے اس قبہ کی صورت میں ایک ناپسندیدہ تعمیر کرائی ہے) چناچہ اس شخص نے اس قبہ کو ڈھا دیا ہے تب آپ ﷺ نے (اس عمار کی ناپسندیدگی اور اپنی ناراضگی کا سبب بیان کرنے کے لئے) فرمایا کہ یاد رکھو! یہ عمارت اپنے بنانے والے کے لئے آخرت میں وبال یعنی عذاب کا سبب بنے گی الا مالا الا مالا یعنی علاوہ اس چیز کے، کہ جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ (ابو داؤد)

تشریح
وبال کے اصل معنی بوجھ، سختی اور مکروہ کے ہیں، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو عمارت بنائی جاتی ہے وہ آخرت میں اپنے مالک کے لئے عذاب کا سبب بنتی ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ حکم اس عمارت کے حق میں ہے جو ضرورت و حاجت سے زائد ہو، اظہار شان و شوکت اور محض عیش و عشرت کے لئے بنائی گئی ہو، ورنہ تو وہ عمارت جو اپنے اور اپنے متعلقین کی رہائشی ضروریات کے بقدر ہو یا جو عمارت خیروبھلائی کے امور کے لئے ہو جیسے مساجد ومدارس اور خانقاہیں وغیرہ، وہ مذکورہ وعید سے مستثنی ہیں، اسی طرح ہر وہ چیز کہ جو انسان کی جسمانی توانائی کو باقی رکھنے اور لباس ورہائش کے طور پر ضروریات زندگی کا درجہ رکھتی ہو، آخرت میں کسی وبال کا باعث نہیں بنے گی۔ بیہقی نے بھی حضرت انس ؓ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ مسجد (اور خیر و بھلائی کے کام میں آنے والی دیگر عمارتوں کے علاوہ، ہر عمارت اپنے مالک پر قیامت کے دن وبال ہوگی، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایسی عمارت کہ رہائشی ضروریات سے زائد اور اظہار شان شوکت کے لئے ہو، اسی طرح طبرانی نے حضرت واثلہ ؓ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ ہر عمارت وبال ہے علاوہ اس عمارت کے جو بس اس قدر ہو اور یہ فرماکر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کے ذریعہ اشارہ فرمایا (یعنی یہ اشارہ فرمایا کہ جو عمارت بہت مختصر اور محض رہائشی ضروریات کے بقدر ہو وہ وبال نہیں ہے) نیز ہر علم، قیامت کے دن وبال ہوگا، علاوہ اس علم کے جس پر عمل کیا جائے۔
Top