مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5078
وعن سهل بن سعد قال جاء رجل فقال يا رسول الله دلني على عمل إذا أنا عملته أحبني الله وأحبني الناس . قال ازهد في الدنيا يحبك الله وازهد فيما عند الناس يحبك الناس رواه الترمذي وابن ماجه
خدا اور لوگوں کی نظر میں محبوب بننے کا طریقہ
سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (بارگاہ رسالت میں) حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ کو کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ میں جب اس کو اختیار کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت رکھے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ دنیا سے زہد اختیار کرو (یعنی دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہو، اس کی فضولیات سے اعراض کرو اور امور آخرت کی طرف متوجہ رہو) اگر تم ایسا کرو گے تو گویا تم اس چیز سے نفرت کرنے والے ہوں گے جس سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور اس کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھے گا اور اس چیز کی طرف رغبت نہ کرو جو لوگوں کے پاس ہے (یعنی جاہ و دولت) لوگ تم سے محبت کریں گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
کسی چیز کی طرف خواہش و میلان نہ رکھنے کو زہد کہتے ہیں اور کامل وصادق زہد یہ ہے کہ دنیا کی لذات میسر ہونے کے باوجود ان سے بےرغبتی اختیار کی جائے، چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس شخص کے بارے میں زہد تصور ہی نہیں ہوسکتا جو نہ مال و دولت رکھتا ہو اور نہ جاہ وحشم کا مالک ہو، بلکہ حقیقت کے اعتبار سے زاہد وہی شخص ہے جو مال و دولت اور جاہ وحشم کا مالک ہونے کے باوجود ان کی لذات سے دور رہے، منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت ابن مبارک (رح) کو یا زاہد کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ زاہد تو بس حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ تھے جن کے دامن میں دنیا کھنچی آتی تھی مگر اس کے باوجود وہ دنیاوی لذات سے ترک تعلق رکھتے تھے اور ہمارے پاس کیا رکھا ہے کہ ہم زہد اختیار کریں گے، حاصل یہ کہ اصل میں زہد یہ ہے کہ لوازمات دنیا میں کھانے پینے اور پہننے کی فراوانی کے باوجود بقدر ضرورت پر قناعت کی جائے اور فضولیات کو ترک کیا جائے۔
Top