مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5092
وعن عقبة بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : إذا رأيت الله عز وجل يعطي العبد من الدنيا على معاصيه ما يحب فإنما هو استدراج ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( فلما نسوا ماذكروا به فتحنا عليهم أبواب كل شيء حتى إذا فرحوا بما أوتوا أخذناهم بغتة فإذا هم مبلسون ) رواه أحمد
کفار وفجار کو دنیاوی مال ودولت کا ملنا گویا انہیں بتدریج عذاب تک پہنچانا ہے
حضرت عقبہ بن عامر ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اس کے گناہ و معصیت میں مبتلا ہونے کے باوجود اس کی محبوب ترین چیزیں (یعنی دنیاوی مال و دولت اور جاہ و حشمت وغیرہ) دیتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ (یعنی اس کو اس کی محبوب ترین چیزیں دینا) استدراج ہے۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے استشہاد کے طور پر یہ آیت تلاوت فرمائی (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِه فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْ ا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ) 6۔ الانعام 44) جب کافر اس نصیحت کو بھول گئے جو انہیں کی گئی تھی (یعنی اللہ تعالیٰ کا عہد، یا یہ کہ جب انہوں نے حق تعالیٰ کی نافرمانی کی) تو ہم نے ان پر (دنیا کی نعمتوں کی) ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہوئے جو انہیں دی گئی تھیں (یعنی جاہ ومال صحت و خوشحالی اور درازیئ عمر اور دیگر نعمتیں) تو ہم نے ان کو (اپنے عذاب میں) پکڑ لیا اور وہ نہایت حیران و ششدر رہ گئے رواہ احمد)

تشریح
لغت میں استدراج کے معنی ہیں درجہ بدرجہ سے جانا! جیسے کسی کو اوپر پہنچانے کے لئے زینہ کی ایک پیڑی پر چڑھا جائے پھر دوسری پیڑی پر چڑھا جائے اور پھر تیسری پیڑی پر، اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک پیڑی پر چڑھاتے ہوئے اس کو آخرت لے جایا جائے! اور بندہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کا استدراج یہ ہے کہ جب کوئی انسان گناہ و معصیت میں مبتلا ہو تو اس کو دنیا کی خوش کن نعمت عطا کرے یا اس کی کوئی بات یا خواہش پوری کردے اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے تاکہ وہ انسان یہ گمان کرے کہ یہ میرے حق میں پروردگار کی طرف سے لطف و کرم ہے، چناچہ اپنی کھال میں مست رہے کہ نہ تو اپنی بدعملیوں سے توبہ کرنے کی طرف متوجہ ہو اور نہ اپنے گناہ پر استغفار کرے اور پھر ایک دم عذاب الٰہی میں پکڑا جائے پس یہ گویا حق تعالیٰ کی طرف سے اس بندہ کو بتدریج عذاب کی طرف لے جانا ہے جیسا کہ کسی کو درجہ بدرجہ چڑھا کر اوپر لے جایا جائے اور پھر اچانک اس کو وہاں سے نیچے پھینک دیا جائے۔ حاصل یہ کہ جس گناہ گار یا کافر کو دنیا کی ترقی یا بھلائی حاصل ہوجائے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ اس کو نواز رہے ہیں بلکہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اس کی تمام تر دنیاوی ترقی و کامیابی دراصل اس کو بتدریج اس مرحلہ تک پہنچانا ہے جہاں اچانک عذاب الٰہی اس کو تباہ و برباد کردے گا۔، خواہ وہ مرحلہ کتنے ہی طویل عرصہ کے بعد آئے۔
Top