مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5118
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ( فمن يرد الله أن يهديه يشرح صدره للإسلام ) فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن النور إذا دخل الصدر انفسح . فقيل يا رسول الله هل لتلك من علم يعرف به ؟ قال نعم التجافي من دار الغرور والإنابة إلى دار الخلود والاستعداد للموت قبل نزوله
شرح صدر کی علامت
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے آیت پڑھی (فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَه يَشْرَحْ صَدْرَه لِلْاِسْلَامِ ) 6۔ الانعام 125) یعنی اللہ تعالیٰ جس شخص کو ہدایت بخشنا چاہتا ہے (یعنی خاص ہدایت کہ جو اس کو مرتبہ اختصاص تک پہنچا دے تو اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے بایں طور کہ اس کو شرائع اسلام اخلاص کے ساتھ قبول کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے پھر حضور ﷺ نے گویا آیت کی تفسیر میں فرمایا جب ہدایت کا نور سینہ میں داخل ہوتا ہے تو سینہ فراخ اور کشادہ ہوجاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ کیا اس حالت و کیفیت کی کوئی علامت ہے جس سے اس کو پہچانا جاسکے؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں اس کی نشانی ہے، دارالغرور (دنیا سے) دور ہونا، آخرت کی طرف کہ جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا جہان ہے، رجوع کرنا اور پوری طرح متوجہ رہنا اور مرنے سے پہلے مرنے کے لئے تیاری کرنا۔

تشریح
شرح صدر یعنی سینہ کا کھل جانا وہ نعمت ہے جو ہدایت و رستی اور تمام دینی و دنیاوی امور میں بہتری و بھلائی کا ذریعہ ہے، یہ کیسے معلوم ہو کہ فلاں شخص شرح صدر کی حالت کو پہنچ گیا ہے؟ اس کو پہچاننے کے لئے تین علامتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک تو دار الغرور (دنیا) سے بعد یعنی زہد و قناعت اختیار کرنا کہ یہ جگہ مکر و فریب سے بھری ہوئی ہے اور شیطان اس کے ذریعہ لوگوں کو فریب دیتا ہے دوسرے دنیا کی طرف سے بےپرواہ ہو کر آخرت کی طرف ہمیشہ متوجہ رہنا اور ہر صورت میں اسی کی بہتری و بھلائی کو ملحوظ رکھنا اور تیسرے یہ کہ موت آنے سے پہلے موت کے لئے تیاری کرلینا یعنی توبہ وانابت کے ذریعہ اپنی لغزشوں اور گناہوں سے اظہار بیزاری کرنا، عبادات اور اچھے کاموں میں سبقت کرنا اور اپنے اوقات کو طاعات الٰہی میں مشغول رکھنا، جس شخص میں یہ تینوں باتین پائی جائیں تو جان لینا چاہئے کہ اس نے گویا تمام شرائع اسلام کو پورے یقین و اخلاص کے ساتھ قبول کرلیا ہے اور وہ اس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں احکام الٰہی کی بجا آوری مزاج و طبعیت پر گراں گزرنے کے بجائے روحانی و جسمانی کیف و سرور اور لذت بہم پہنچاتی ہے۔ واضح رہے کہ شرح صدر یعنی سینہ کی کشادگی سے مراد قلب میں قبول حق کی استعداد و صلاحیت کا پیدا ہوجانا ہے اور قلب مومن جو نور ہدایت سے پر ہو، وہ بذات خود بڑے عظیم رتبہ کا حامل ہے یہاں تک کہ اس کو عرش رب سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن یعنی نہ تو میری زمین میری گنجائش رکھتی ہے اور نہ میرا آسمان لیکن میرے مومن بندے کا قلب میری گنجائش رکھتا ہے۔ دنیا کو دارالغرور یعنی دھوکے گھر، کہا گیا ہے کیونکہ بلا شبہ یہ دنیا مکر و فریب میں مبتلا کرنے اور دھوکا دینے والی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی عہد شکن نہیں ہے، لوگ اس کی محبت میں مبتلا ہو کر کیا کچھ نہیں کرتے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کیسے کیسے پاپڑ نہیں بیلتے، لیکن آخر کار یہ کسی کی نہیں ہوتی اور ہر ایک کو دغا دیتی ہے، چناچہ قرآن کریم میں آگاہ فرمایا گیا ہے کہ آیت (ولا یغرنکم الحیوۃ الدنیا) یعنی دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔ جہاں تک اس دنیا کی حقیقت و ماہیت کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی شبہ کرسکتا ہے کہ یہ دنیا خرابی و فساد اور رنج و محن کا گھر ہے اگرچہ اس کی ظاہری حالت ایک نعمت کی طرح معلوم ہوتی ہے اور اس کی مثال سراب کی سی ہے کہ دھوپ میں چمکنے والے ریگستانی ریت کو پانی سمجھ کر پیاسا اس کی طرف لپکتا ہے مگر جب قریب پہنچتا ہے تو اس کو حقیقت نظر آتی ہے اور سمجھتا ہے کہ میں دھوکہ میں مبتلا ہوگیا، بالکل اسی طرح بادشاہ و امراء دولتمند اور دنیا دار لوگ دنیا کی ظاہری چمک دمک کے دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں مگر وقت گزر چکا ہوتا ہے اور حسرت و خسران کے سوا ان کے ہاتھ اور کچھ نہیں لگتا۔ موت آنے سے پہلے سے حیات مستعار کا وہ عرصہ مراد ہے جس میں انسان کچھ کرلینے کی صلاحیت و قوت رکھتا ہے یعنی صحت تندرستی کا زمانہ اور آخر درجہ میں وہ زمانہ بھی مراد ہوسکتا ہے جب موت کے مقدمات ظاہر ہوں گے اور زندگی کے خاتمہ کے ظاہری اسباب پیدا ہوجائیں اور وہ مرض و بیماری کا زمانہ ہے لیکن عمر کا وہ حصہ کہ جو انسان کو بالکل بیکار و ناکارہ بنا کر رکھ دیتا ہے یعنی بہت بڑھاپا کہ اس زمانہ میں نہ علم و معرفت حاصل کرنے کی طاقت رہتی ہے اور نہ عمل کرنے پر قدرت ہوتی ہے، اس وقت بےفائدہ حسرت و ندامت کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، لہٰذا دانائی اسی میں ہے کہ اس زمانہ سے پہلے سفر آخرت کے لئے زاد راہ تیار کرلیا جائے۔
Top