مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5119
وعن أبي هريرة وأبي خلاد رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا رأيتم العبد يعطى زهدا في الدنيا وقلة منطق فاقتربوا منه فإنه يلقى الحكمة . رواهما البيهقي في شعب الإيمان
حکمت و دانائی کس کو عطا ہوتی ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوخلاد ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اس کو (دنیا سے) بےرغبتی اور (لغو و بیہودہ کلام سے اجتناب اور) کم گوئی عطا کی گئی ہے تو اس کی قربت و صحبت اختیار کرو کیونکہ اس کو حکمت و دانائی کی دولت دی گئی ہے۔ ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے (اور پہلی حدیث بہت سے طرق سے ثابت ہے۔

تشریح
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ زیادہ دانا مومن کون ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ مومن جو موت کو بہت یاد کرتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی (یعنی آخرت) کے لئے بہت تیاری کرتا ہو۔ مذکورہ بالا حدیث میں لفظ حکمت نقل کیا گیا ہے اس سے مراد نیک کرداری اور راست گفتاری ہے۔ اور جس بندے کو اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماتا ہے اس کی بڑی فضیلت منقول ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (ومن یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا) یعنی جس شخص کو حکمت عطا کی گئی، گویا اس کو بہت زیادہ خیر و بھلائی دی گئی۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص دنیا سے بےاعتنائی اور بےرغبتی اختیار کئے ہوئے ہو اور کم گوئی کی صفت سے متصف ہو وہ ایک ایسا مخلص و کامل عالم ہے جس کو اللہ نے نیک کرداری اور راست گفتاری کی دولت سے نواز دیا ہے اور وہ یقینا مرشد و مقتدا بننے کا اہل ہے کہ وہ بندگان اللہ کی تربیت و اصلاح اور رشد و ہدایت کی ذمہ داری کو پوری طرح انجام دے سکتا ہو، لہٰذا ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ اس کی اطاعت و خدمت کرے، اسی کی صحبت و ہمنشینی اختیار کرے اور اس کے ساتھ ہم کلامی رکھے، بعض عارفین نے بہت خوب کہا ہے کہ اللہ کی صحبت اختیار کرو۔ اگر تم اس پر قادر نہ ہو سکو تو اس شخص کی صحبت و ہم نشینی اختیار کرو جو اللہ کے ساتھ صحبت رکھتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وہ شخص وہی ہوسکتا ہے کہ جس میں کردار و احوال اور اقوال و افعال کے صحیح اور قابل اعتماد ہونے کی وہ علامت پائی جائے جو انشراح صدر کی علامت کے طور پر پچھلی حدیث میں بیان کی جا چکی ہے اور اس کی وہ حیثیت و شخصیت اس طرح ظاہر و ثابت ہوجائے کہ اس کی صحبت تمام دینی و دنیاوی معاملات پر بھلائی و بہتری کی صورت میں اثر انداز ہوتی ہو، وہ اپنے رفقاء اور معتقدین کو دنیاوی لذات سے کنارہ کش، تحصیل مال و جاہ سے بےرغبت اور مقدار حاجت و ضرورت سے زیادہ کی طلب و خواہش سے بےپرواہ بنا کر زاد عقبی کی طرف پہنچاتا ہو۔ ایسا شخص نہ صرف عالم و عارف کہلاتا ہے بلکہ انبیاء کا حقیقی وارثو خلیفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے عارف باللہ کی زیارت و خدمت اور اس کی صحبت و ہم نشینی کی نعمت عظمی سے سرفراز فرمائے (آمین ثم آمین)
Top