مشکوٰۃ المصابیح - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 1787
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ما خالطت الزكاة مالا قط إلا أهلكته . رواه الشافعي والبخاري في تاريخه والحميدي وزاد قال : يكون قد وجب عليك صدقة فلا تخرجها فيهلك الحرام الحلال . وقد احتج به من يرى تعلق الزكاة بالعين هكذا في المنتقى وروى البيهقي في شعب الإيمان عن أحمد بن حنبل بإسناده إلى عائشة . وقال أحمد في خالطت : تفسيره أن الرجل يأخذ الزكاة وهو موسر أو غني وإنما هي للفقراء
حلال مال میں حرام مال کو ملانا مال کو ضائع کردینا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس مال میں زکوٰۃ رل مل جاتی ہے وہ مال ضائع ہوجاتا ہے۔ (شافعی، بخاری، حمیدی) حمید نے یہ مزید نقل کیا (یعنی حدیث کی وضاحت بیان کی ہے کہ) بخاری نے فرمایا کہ جب تم پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور تم زکوٰۃ نہیں نکالتے تو وہ زکوٰۃ مال میں رلی ملی ہوتی ہے لہٰذا حرام مال حلال مال کو ضائع کردیتا ہے جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ زکوٰۃ عین مال سے متعلق ہے نہ کہ ذمہ سے تو انہوں نے اسی حدیث کو بخاری کی مذکورہ بالا وضاحت کے ساتھ اپنی دلیل قرار دیا ہے (منتقی، بیہقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو امام احمد بن حنبل سے حضرت عائشہ تک سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے چناچہ امام احمد نے حدیث کے لفظ خالطت کے معنی یا اس کی تاویل) کے سلسلے میں یہ وضاحت کی ہے کہ (مثلاً ایک شخص مالدار اور یا غنی ہے مگر اس کے باوجود وہ زکوٰۃ لیتا ہے حالانکہ زکوٰۃ تو صرف فقراء اور مساکین اور مستحقین کے لئے جائز ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں حضرت امام بخاری تو اس کا مطلب یہ بیان فرما رہے ہیں کہ مثلا ایک شخص صاحب نصاب ہے اور اس پر زکوٰۃ واجب ہے مگر وہ اپنے مال میں سے وہ حصہ نہیں نکالتا جو بطور زکوٰۃ اس پر نکالنا واجب ہے اس طرح مال وہ حصہ جو زکوٰۃ کے طور پر اسے نکالنا چاہئے تھا اور اب نہ نکالنے کی صورت میں وہ اس کے حق میں حرام مال ہے اس کے اصل میں مال مخلوط رہے۔ بہرحال ان میں سے کوئی بھی معنی متعین کر لئے جائیں دونوں اقوال کے پیش نظر حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حرام مال خواہ وہ مال میں سے بقدر واجب نہ نکالا جانے والا حصہ ہو خواہ صاحب نصاب کا کسی دوسرے سے زکوٰۃ میں حاصل کیا ہوا مال ہو، اصل اور حال مال کو شائع اور تباہ کردیتا ہے بایں طور کہ اس حرام مال کے ملنے کی وجہ سے پورا مال کسی نہ کسی طرح ضائع ہوجاتا ہے یا اس میں کوئی نقصان واقع ہوجاتا ہے یا مال میں سے برکت اٹھ جاتی ہے اور یا مال ناقابل انتفاع جاتا ہے کیونکہ حرام مال سے نفع اٹھانا شرعا جائز نہیں ہے۔ ادائیگی زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے یا ذمہ سے ہے روایت کے آخر میں ایک اختلافی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ادائیگی زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے؟ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک شخص مالدار یعنی صاحب نصاب ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہے اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ زکوٰۃ کے طور پر بقدر واجب مال اسی مال میں سے نکال کر دے جو اس کے پاس ہے یا یہ کہ اگر وہ اسی مال میں زکوٰۃ کے بقدر حصہ نہ نکالے بلکہ اس کی قیمت ادا کرے تو اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی اور دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے یعنی جس مال پر زکوٰۃ واجب ہے اسی مال میں بقدر واجب مال نکال کر زکوٰۃ ادا کرے اور یہ بات انہوں نے حدیث کے لفظ خالطت سے مستنبط کی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا تعلق ذمہ ہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صاحب نصاب اسی مال سے کہ جس پر زکوٰۃ واجب ہے زکوٰۃ کے طور پر بقدر واجب مال نہ نکالے بلکہ اتنے ہی مال کی قیمت زکوٰۃ میں ادا کرے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے اور وہ بری الذمہ ہوجائے گا۔ مگر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ حدیث حضرت امام شافعی وغیر کے مذکورہ مسلک کی دلیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ حدیث انہیں معنی کو حدیث کا اصل مفہوم قرار دیا جائے جو حضرت امام بخاری کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ حنفی مسلک کی دلیلیں ملا علی قاری نے مرقات میں اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اشعۃ اللمعات میں بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ طوالت کی وجہ سے انہیں یہاں نقل نہیں کیا گیا ہے۔ اہل علم ان کتابوں سے مراجعت کرسکتے ہیں۔
Top