مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 3990
وعن قبيصة بن هلب عن أبيه قال : سألت النبي صلى الله عليه و سلم عن طعام النصارى وفي رواية : سأله رجل فقال : إن من الطعام طعاما أتحرج منه فقال : لا يتخلجن في صدرك شيء ضارعت فيه النصرانية . رواه الترمذي وأبو داود
غیر مسلموں کے ہاں کا کھانا حلال ہے
اور حضرت قبیصہ ؓ بن ہلب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عیسائیوں کے کھانوں کے بارے میں دریافت کیا ( کہ ہم لوگ کھائیں یا نہیں؟ ) اور ایک رویت میں یوں ہے کہ ( اس بارے میں) ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے مسئلہ پوچھا، چناچہ اس نے عرض کیا کہ کھانوں میں سے ایک کھانا ( یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کا کھانا) ایسا ہے جس سے میں پرہیز کرتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے دل میں کسی چیز یعنی شک و شبہ کی کھٹک نہ پیدا ہونی چاہئے، تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی ہے۔ ( ترمذی ابوداؤد )

تشریح
تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے سائل پر یہ واضح کیا کہ تمہارا عیسائیوں کے تیار کئے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا ایک ایسا عمل ہے جس نے تمہیں عیسائیوں کے مشابہ کردیا ہے کیونکہ یہ عیسائیوں ہی کا شیوہ ہے کہ انہوں نے کھانے پینے کے معاملہ میں اپنے اوپر بےجا پابندیاں عائد کرلی ہیں اور ان کے پادریوں نے دین میں سختی پیدا کردی ہے چناچہ اگر ان کے دل میں کسی بھی اچھے خاصے اور حلال کھانے کے بارے میں یہ کھٹک پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ حرام ہے یا مکروہ ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے اس سے پرہیز کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا تم بلا دلیل شک و شبہ میں پڑ کر ان کے کھانے سے پرہیز نہ کرو، تم مسلمان ہو اور تمہارا دین نہایت سیدھا سادا اور آسان ہے اس میں سختی اور دشواری کا نام نہیں ہے، تمہیں اپنے عمل سے اپنے دین کی نرمی اور آسانی کو ظاہر کرنا چاہئے، اگر تم بلا تحقیق کسی کھانے کو حرام سمجھنے لگو گے تو یہ اپنے اوپر بےجا قسم کی پابندی عائد کرنے اور اپنے دین کو سخت ظاہر کرنے کے مرادف ہی نہیں ہوگا بلکہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کرنے کے برابر بھی ہوگا۔ بعض حضرات نے حدیث کے آخری جزو کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ تمہارے دل میں کوئی خدشہ اس بات کا نہ گزرے کہ عیسائیوں کا کھانا کھانے سے تم ان کے مشابہ ہوگئے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کسی کھانے کو محض اس لئے اپنے اوپر حرام نہ کرلو کہ وہ کسی غیر مسلم کا تیار کیا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے اس غیر مسلم کی مشابہت لازم آئے گی کیونکہ کھانے پینے کی چیزوں میں کسی قوم کی مشابہت ضرر نہیں کرتی بشرطیکہ تشبیہ کی نیت نہ ہو۔ اس ارشاد گرامی میں عیسائیت کی تخصیص محض اس بنیاد پر ہے کہ سوال کرنے والے صحابی حضرت عدی بن حاتم ؓ تھے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائیت کے پیرو تھے۔ بہر حال! حدیث سے یہ واضح ہوا کہ جب تک کسی کھانے کی حرمت کا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے اس سے پرہیز کرنا یا اس کو کھانے میں تردد کرنا مناسب نہیں ہے، غیر مسلم اقوام کی طرح اسلام میں کھانے پینے کا پرہیز نہیں ہے کہ ذرا کسی کا ہاتھ لگ گیا تو وہ کھانا چھوت ہوگیا، بلکہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ ہر قوم کا پکا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ یقین نہ ہو کہ اس کھانے میں کوئی حرام چیز ملائی گئی ہے یا وہ نجس برتنوں میں پکایا گیا ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم کوئی حرام چیز پکائے مثلا غیر مذبوحہ گوشت یا مردار یا سؤر اور یا کھانے میں شراب ملائے تو اس کو بھی کھالیا جائے۔
Top