مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 3997
عن أبي وافد الليثي قال : قدم النبي صلى الله عليه و سلم المدينة وهم يجبون أسنمة الإبل ويقطعون أليات الغنم فقال : ما يقطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة لا تؤكل . رواه الترمذي وأبو داود
زندہ جانور کے جسم سے کاٹا گیا کوئی بھی حصہ مردار ہے
اور حضرت ابو واقد لیثی ؓ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ ( مکہ سے ہجرت فرما کر) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے لوگ ( ایسا کرتے تھے کہ) اونٹ کے کوہان اور دنبوں کی چکتیاں کاٹ لیا کرتے تھے ( اور پھر اس کو کھاتے تھے) چناچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو چیز بھی کہ ایسے جانور کے جسم سے کاٹی جائے جو زندہ ہو تو وہ ( کاٹی گئی چیز) مردار ہے، اس کو نہ کھایا جائے۔ ( ترمذی، ابوداؤد )

تشریح
زمانہ اسلام سے قبل چونکہ جاہلیت نے انسانی عقل و طبائع کو ماؤف کر رکھا تھا اس لئے اس وقت کے انسان ایسے ایسے طور طریقوں میں مبتلا تھے جن سے انسانیت بھی پناہ مانگتی تھی، انھی طور طریقوں میں ایک رواج مدینہ والوں میں یہ بھی جاری تھا کہ وہ جب چاہتے اپنے زندہ اونٹوں کے کوہان، زندہ دنبوں کی چکتیاں کاٹ لتیے تھے اور ان کو بھون پکا کر کھالیتے تھے۔ یہ جانوروں کے تئیں ایک انتہائی بےرحمانہ طریقہ ہی نہیں تھا بلکہ طبع سلیم کے منافی بھی تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو اس مذموم فعل سے باز رکھا اور ان پر واضح کیا کہ زندہ جانور کے جسم سے جو بھی عضو کاٹا جائے گا وہ مردار ہوگا اور اس کا کھانا حرام ہوگا۔
Top