مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 4041
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما سالمناهم منذ حاربناهم ومن ترك شيئا منهم خيفة فليس منا . رواه أبو داود
انتقام کے خوف سے سانپ کو نہ مارنے والے کے بارے میں وعید
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب سے ہم نے سانپوں سے لڑائی شروع کی ہے اس وقت سے ہم نے ان سے مصالحت نہیں کی ہے۔ لہٰذا جو شخص ان سانپوں میں سے کسی سانپ کو ( اس) خوف کی وجہ سے (مارنے) باز رہے ( کہ خود وہ سانپ یا اس کا جوڑا نقصان پہنچائے گا اور بدلہ لے گا، تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ( ابوداؤد )

تشریح
ایک دوسری روایت میں منذ حار بناہم کے بجائے منذ عا دینا ہم کے الفاظ منقول ہیں۔ یعنی جب سے ہمارے اور سانپوں کے درمیان لڑائی اور دشمنی واقع ہوئی ہے بہر حال مراد یہ ہے کہ انسان اور سانپ کے درمیان دشمنی اور لڑائی ایک طبعی اور جبلی چیز ہے کہ ہر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے، اگر انسان سانپ کو دیکھتا ہے تو اس کو ضرور مار ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر سانپ موقع پاتا ہے تو اس کو کاٹے اور ڈسے بغیر نہیں رہتا، بلکہ بعض علماء نے تو یہ کہا ہے کہ اس لڑائی اور دشمنی سے مراد دراصل وہ عداوت ہے جو اولاد آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے بھی پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) اور سانپ کے درمیان قائم ہوئی تھی، جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب ابلیس لعین نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو بہکانے کے لئے جنت میں داخل ہونا چاہا، تو جنت کے داروغہ نے اس کو روک دیا چناچہ یہ سانپ ہی تھا جو ابلیس کا کام آیا اس نے ابلیس کو اپنے منہ کے اندر لے کر جنت میں پہنچا دیا اور پھر ابلیس لعین نے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا کے لئے اپنے مکر و فریب کا جال پھیلا کر ان کو وسوسہ میں ڈال دیا اور ان دونوں نے جنت کے اس درخت سے کھالیا، جس کے پاس جانے سے بھی ان کو منع کردیا تھا اور آخر کار ان دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا اور حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا علیھا اور ابلیس و سانپ کو خطاب کر کے فرمایا آیت (اھبطوا بعضکم لبعض عدو )۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سانپ کی شکل و صورت بہت اچھی اور خوشنما تھی مگر اس کے اس سخت جرم کے عذاب میں کہ وہ ابلیس کا آلہ کار بنا اس کی صورت مسخ کردی گئی، لہٰذا سانپ اس کے مستحق ہے کہ اس کے تئیں یہ عداوت و نفرت ہمیشہ باقی رکھی جائے۔ واضح رہے کہ ما سلمانھم منذ حاربنا ہم میں سانپوں کے لئے ذوی العقول کی ضمیر اس لئے استعمال ہوئی ہے کہ ان کی طرف صلح کی نسبت کی گئی ہے جو ذوی العقول کے افعال میں سے ہے۔ جیسے کہ اس آیت کریمہ ( وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ ) 12۔ یوسف 4) میں سورج اور چاند کے لئے ذوی العقول کی ضمیر لائی گئی ہے ورنہ قاعدے کے اعتبار سے ان کے لئے غیر ذوی العقول کی ضمیر استعمال کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے تھا ما سالمنا ہن منذ حاربناہن۔
Top